حکمران اشرافیہ کی یکے بعد دیگرے آنے والی نسلوں کیلئے ان کے اقتدار کے دن اور جس طریقے سے وہ درپیش چیلنجز سے نمٹتی رہی ہیں ، کی بے نقابی باعث شرمندگی رہی ہے ۔ سچائی کے ساتھ کھلواڑایک عادت ہے جسے ہم نے ملک کی آزادی کے ساتھ ہی اپنا لیا تھا، اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہم نے ثابت قدمی سے برقرار رکھا ہے۔ اس عمل میں کوئی بھی اس قینچی کی تکلیف دہ کاٹ سے نہ بچ سکا جو ہماری تاریخ کے مختلف ادوار پر چلتی رہی۔ حتیٰ کہ قائد کی وہ تقریر جو انہوں نے 11اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں کی تھی، اسے بھی نہ بخشا گیا۔ اس تقریر میں ان بنیادی اخلاقیات کا تفصیل سے خاکہ پیش کیا گیا تھا کہ قائد محترم کے پیش نظر پاکستان کا کس قسم کے ملک کا تصور تھا۔ چونکہ یہ تصور کچھ لوگوں کے مطابق سازگار نہیں تھا، اس لیے قائد کی وفات کے بعد ریاست اور اسکے رہنماؤں کے طرز عمل پر اس تقریر کا کوئی اثر دکھائی نہ دیا۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں یہ آرکائیوز سے غائب کر دی گئی، اور بعد کے کسی مرحلے پر دوبارہ منظر عام پر آئی ۔ آج کا پاکستان وہ ملک ہر گز نہیں ہے جو تقریر کے اصل مندرجات کے مطابق بننا تھا ۔
محترمہ فاطمہ جناح کی تقریروں پر بھی غیرعلانیہ پابندیاں عائد تھیں ۔ جب انھیں آخرکار بولنے کی اجازت دی گئی تو دو منٹ کے بعد ہی انھیں آف ایئر کردیا گیا کیونکہ انھوں نے کچھ سچ بولنا چاہا تھا جو ارباب اختیار کو پسند نہ تھا ۔ بعد میں جب محترمہ نے صدارتی الیکشن لڑا تو انھیں غدار قرار دے دیا گیا ۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی ریاست نے کبھی باضابطہ طور پر تصدیق نہیں کی ۔ ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کے پس پردہ حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھا گیا ، جبکہ حال ہی میں ایک سابق وزیر اعظم کی پھانسی کے 45سال بعد ملک کی سپریم کورٹ نے اس کیس پر رائے زنی کی ۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے رائے دی کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے مقدمے کی سماعت کی کارروائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 4 اور 9 میں درج ہے اور آئین کے آرٹیکل 10A کے تحت بنیادی حق کے طور پر ان کی ضمانت دی گئی ہے ۔
حکمران اشرافیہ کی بے لاگ سرپرستی کی وجہ سے جہاں بدعنوانی اور بے شمار قسم کی بداعمالیوں کا احتساب نہ ہو سکا، وہیں ادیبوں اور دانشوروں کی تخلیقات بھی قینچی کی زد میں آنے سے نہ بچ سکیں۔ درحقیقت ہمارے ہاں فکری اور تخلیقی کاموں پر بہت دیر سے پابندی عائد ہے۔فیض احمد فیض کےکلام کی تحقیق کے دوران میں نے دریافت کیا کہ ان کی دو قابل ذکر نظموں کے کچھ حصے غائب ہیں ، یاکم از کم وہ شاعر کے شائع شدہ کلام میں شامل نہیں ہیں۔ یہ ان کی نظموں ، ’’ویبقی وجہ ربک ( ہم دیکھیں گے)‘‘ اور ’’ندا الغیب‘‘ ہیں۔ پہلی نظم کی چند ایک سطریں غائب ہیں، جب کہ دوسری نظم سے دو مکمل بند غائب کر دیے گئے ہیں ۔ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے بات کی جو فیض کے چاہنے والے ہیں، اور جنہوں نے انھیں بڑے پیمانے پر پڑھا اور پڑھایاہے، لیکن اس کی کوئی معتبر وجہ دریافت نہ ہو سکی، سوائے اس کے کہ کسی مرحلے پر ان اشعار کو منظر عام سے غائب کرنا ضروری ہوچکا ہو گا۔
بہت سے باغی شاعروں اور ادیبوں کو طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔ فیض کو خود ساختہ جلاوطنی کی اذیت سہناپڑی۔ یہ حکمرانوں اور سماجی حلقوں میں پھیلی عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فیض نے اپنی ایک شاہکار نظم میں اس کا ماتم اس طرح کیا ہے : مرے دل ، مرے مسافر / ہوا پھر سے حکم صادر / کہ وطن بدر ہوں ہم تم / دیں گلی گلی صدائیں / کریں رخ نگر نگر کا / کہ سراغ کوئی پائیں / کسی یار نامہ بر کا / ہراک اجنبی سے پوچھیں / جو پتہ تھا اپنے گھر کا ۔
ہم اپنے ناقص اور اکثر متعصب معیارات سے سچائی کی پیمائش کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز کو قبول کرنے کو تیار نہیں جو اس تنگ نظری کے پیمانے سے باہر ہو جو ہم نے دوسروں کی وفاداری اور حب الوطنی کو جانچنے کیلئے تیار کیا ہے۔ ہم ایسے دائروں میں سرگرداں رہتے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم اس ڈھانچے کو استحکام اور تقویت بخشتے ہیں جو ہمیں سانس لینے کا موقع تک دینے کا روادار نہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی گرفت کڑی ہوتی جاتی ہے ۔ ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جو صاحبان اقتدار کے جاہ طلبی کی ضروریات پوری کرے ۔ مخصوص ایجنڈے کے تحت قانون سازی کی جاتی ہے ، جیسا کہ 26ویں آئینی ترمیم جس نے نظام عدل کو منہدم کرکے اسے ایگزیکٹو کے ماتحت بنا دیا ہے۔
ہم ان پسماندہ افراد کواذیت میں دیکھتے ہیں جنہیں بمشکل دو وقت کی روٹی میسر ہے ۔ مفاد پرست اشرافیہ کا دھن دولت بڑھ رہا ہے ، جب کہ غریب افراد کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جب امیر غریب کا تضاد بڑھ رہا ہے ، لوگ اپنے بچاؤ کیلئے ملک چھوڑ جانے پر مجبور ہیں ۔ حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں شہری آزادیوں میں پریشان کن کمی، بگڑتے ہوئی امن و امان کی صورت حال، اور وفاقی ڈھانچے پر ایک واضح دباؤکو تشویشناک مسائل کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں فروری 2024ءکے انتخابات کو ’’انتخابی ہیرا پھیری کے الزامات‘‘ کی زد میں بتایا گیا ہے ۔
سچ کڑوا ہو سکتا ہے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔لیکن یہ ہمیں سبق سیکھنے، سرزد ہونے والی غلطیوں کی اصلاح کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ ان کا اعادہ نہ ہو۔ انفرادی مفاد یا کسی مخصوص وقت کو گزارنے کیلئے اس سے گریز کرنا مزید خرابیوں کی کھائی میں دھکیل سکتا ہے ۔ آزادی زیادہ نہ کہ کم ، حقوق زیادہ نہ کہ کم ہمیں اس طوق سے آزاد کراسکتے ہیں جوعرصہ دراز سے ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ ایسا کرنے میں ناکام رہنے پر ہم اس دلدل سے نکل نہیں پائیں گے جس میں ہم دھنستے جارہے ہیں ۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)