بھارت کے ہاتھ ایک بار پھر شرارت کی شرلی آ گئی ہے اور وہ عالمی سطح پر ہمدردی سمیٹنے کیلئے سرگرم ہو گیا ہے۔ پاکستان کی فضائی حدود بغیر کسی خیر سگالی پیغام کے استعمال کرنے والے بھارتی ہندو توا کے پرچارک اور چالاک لومڑی نما بھارتی وزیر اعظم مودی نے پہلگام واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ہی نہیں ڈالی بلکہ موجودہ حکومت کو بھی رگید دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دیے گئے پیغام میں دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کی اور جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے بھارت کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ پہلگام حملہ جو 2019ء کے بعد ہمالین خطے میں سب سے مہلک دہشت گرد کارروائی قرار دی جا رہی ہے اس نے ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ماضی میں کشمیر کے تنازع پر دو جنگیں اور ایک محدود جنگ لڑ چکی ہیں۔ اس حملے نے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں استحکام کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے جسکا بھارتی حکام برملا اعتراف کر رہے ہیں اور ماہرین کے مطابق، حملہ آوروں نے بھارتی وزیر اعظم مودی کے سعودی عرب کے دورے اور وینس سمٹ کے موقع پر یہ کارروائی کرکے عالمی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ سابق بھارتی فوجی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کی سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچانے اور اہم ہندو یاترا سے قبل خوف پھیلانے کیلئے کی گئی ہے۔ اس حوالے سے عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس حملے نے بھارت کے سب سے بڑی فوجی چھاؤنی والے خطے میں سکیورٹی کی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ 2019ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اسکی سخت گیر پالیسیوں نے خطے میں امن اور ترقی کو فروغ دیا ہے تاہم یہ حملہ مودی اور انکی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ان دعوؤں کیلئے شدید دھچکا ثابت ہوا ہے۔ بھارتی پولیس نے حملے کی ذمہ داری مقامی عسکریت پسند گروپ ’’دی ریزسٹنس فرنٹ‘‘ پر عائد کی جس نے سوشل میڈیا پر کارروائی کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ کیا کیجئے اس بھونڈی بھارتی سیاست کا کہ بھارتی فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام لگاتے ہوئے فوری اور سخت ردعمل کا مطالبہ کیا۔ اب پاکستان کے خلاف جوابی اقدامات کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کا خاتمہ، اٹاری چیک پوسٹ بند، پاکستانی سفارتی حکام کو بھارت چھوڑنے کا حکم سمیت ایسے دوسرے سیاسی اور سفارتی اقدامات شامل ہیں جو ایک فوجی جارحیت از قسم نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک، بمباری ہو گی جس کی منصوبہ بندی کر کے جوابی جارحانہ اقدامات کیلئے امریکی صدر کو آگاہی دی جائے گی جو ممکنہ طور پر پاکستان پر شدید دبائو بڑھا سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنا ہے۔ پاکستان جو پہلے ہی بھاری برانڈ کی عسکریت پسندی و دہشت گردی کا شکار ہے اس کی بین الاقوامی سطح پر مشکیں کسنے کا کوئی موقع عالمی شر پسند ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پہلگام واقعہ کی پاکستان اور بین الاقوامی سطح کی کشمیریوں کی تنظیموں نے بھی فوری مذمت کی لیکن اسے سراہا نہیں جا رہا نہ ہی حقائق کو خاطر میں لایا جا رہا ہے۔ جس گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی وہ جانے اور بھارتی حکومت، پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
جہاں تک پاکستان کے جوابی اقدامات کا تعلق ہے تو پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے اور اس کی مسلح افواج کی حربی صلاحیتوں کی دنیا معترف ہے، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ پاکستان اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے میں کسی تذبذب کا شکار ہوگا بلکہ فوری ،منہ توڑ اور مسکت جواب ہر جارح کو ضرور ملے گا۔ لازم ہے کہ اقوام متحدہ بھارت میں اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے تلاش حقائق مشن بھجوائے امریکہ بھی اس حوالے سے بھارت کی بھرپور مدد کرے کیونکہ بھارتی افسروں کی صلاحیتوں کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف فضائی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتیس اور تیس اپریل کی شب چار رافیل طیارے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کیے لیکن پاکستان کی طرف سے ایک گاڑی پر نصب کیمرے سسٹم نے ان طیاروں کے سسٹم کو بے بس کردیا ۔ پاکستان کی تینوں افواج کے جواں ہمہ تن بیدار اور پر جوش ہیں، وہ وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کیلئے مستعد ہیں اور اپنی حربی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کی خاطر بے تاب نظر آرہے ہیں اور اسکی ایک مثال ہمارے چیف آف ایئر اسٹاف ایئر مارشل ظہیر احمد بابر نے ایف سولہ اڑا کر جنگی مشقوں میں حصہ لےکر کیا کہ وہ اور ان کی فورس کتنی چاق و چوبند ہے اور یہی حال ہماری بکھری ہوئی اور تقسیم قوم کا بھی ہے جو سیاسی سودو زیاں اور معاشی، سیاسی و سماجی مسائل میں پسنے کے باوجود بھارت کا غرور خاک میں ملتا دیکھنے اور خود بھی وطن کی حفاظت کیلئےعملاً اس میدان کار زار میں کودنے کو بے تاب ہے۔ ایسا جذبہ جس قوم میں ہو وہاں انڈیا کی طرح خوف اور سراسیمگی نہیں ہوتی۔ لہٰذاکوئی بھی بے وقوفی بھارت اور اس کی عسکری قوت کو چند گھنٹوں میں محروم کرسکتی ہے۔ کیا مودی دلی کو ایک بار پھر اجڑا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں؟
بقول جناب الطاف حسین حالی
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز