• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاست اور جمہوریت اس حد تک کمزور ہوگئی ہے کہ حال ہی میں جاری صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹریشنل فیڈریشن آف جرنلٹس کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان اس وقت جمہوری انڈیکس میں شامل ہی نہیں ہے یعنی ان کے بقول یہاں جمہوریت نہیں ہے۔ انہوں نے ایسا شاید اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے اور پیکا جیسے قوانین کے تناظر میں کہا ہو مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہائبرڈ نظام اب جڑیں پکڑ گیا ہے اور سویلین اسپیس کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ آئین ہے مگر آئین کی عمل داری نہیں۔ قانون ہے مگر قانون کی حکمرانی نہیں، میڈیا ہے مگر آزادی رائےکی آزادی نہیں۔ رہ گئی بات حکومتوں کی تو ان کی کارکردگی صرف سرکاری اشتہارات میں نظر آتی ہے یقین نہ آئے تو کچھ روز انتظار کر لیں ’’بارشوں‘‘ کے اربوں روپےکے پروجیکٹ کا پوسٹ مارٹم ہو جائے گا۔

ہم بعض معاملات میں ایک قوم نظر آتے ہیں جیسا کہ اس وقت پاک،بھارت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے جنگ کے بادل نظر آئے تو ہم تمام اختلافات بھلا کر متحد ہو گئے۔ تو صرف جنگ میں ہی کیوں متحد نظر آئیں امن کے دنوں میں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان کی جتنی بھی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ان پر اچھا اور برا وقت آیا ہے انہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں وہی قوانین جو ان کے خلاف استعمال ہوئے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیے کسی نے بھی انہیں ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر یہ ساری بڑی جماعتیں خود ہی غور کر لیں کہ انہوں نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے یاکمزور۔

کل تک میاں نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی نیشنل سیکورٹی کونسل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تقریر پر جو اخبارات میں نمایاں چھپی، ناراضگی کا اظہار کیا تو جنرل کرامت نے استعفیٰ دے دیا۔ اب اگر اس وقت شہباز شریف وزیر اعظم ہوتے تو رائے کو فیصلے میں تبدیل کردیتے یقین نہ آئے تو ان کے چند حالیہ فیصلے دیکھ لیں۔ تاہم نظر یہی آتا ہے کہ میاں صاحب تو اپنی سیاسی اننگ کھیل چکے ہیں مگر وہ آج بھی سب سے تجربہ کار سیاستدان کی حیثیت میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جس کی ابتدا بہرحال انہیں اپوزیشن لیڈر عمران خان کے بارے میں اپنے رویےمیں تبدیلی لانے سے کرنی پڑے گی۔ کیا تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو جیلوں میں ڈال کر سیاسی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ 2006ءمیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے تاریخی میثاق جمہوریت کیا اور اگر اس پر عمل در آمد ہوتا اس کی روح کے مطابق تو آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف ہوتی اور شاید این آر او کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

عمران خان پر سب سے بڑا الزام 9مئی کا ہے اور دو دن بعد اس واقعہ کو دو سال مکمل ہو جائیں گے۔ کیا اس حوالے سے کوئی چارج شیٹ، سازش کہاں ہوئی، کس نے کی، جیسے سنگین الزامات۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس اہم ترین اور غیر معمولی واقعہ کا ٹرائل اب تک مکمل ہو چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے اس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر کے خود اس کی سنگینی کو کم کر دیا گیا یعنی جس مشتبہ شخص نے واقعہ کی مذمت کی وہ گھر چلا گیا یا دوسری جماعت میں، جس نے نہیں کی وہ جیل میں۔ یہ صورتحال کم و بیش ایسی ہی ہے جو متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ 22اگست2016ءمیں ہوئی۔ آج 10سال گزرنے کے باوجود نہ اس مقدمہ کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم (لندن) پر سے غیر علانیہ پابندی ختم ہوتی ہے۔ کیا یہی سب کوئی دو دہائیوں تک خود پی پی پی کے کارکن پی آئی اے طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد نہیں بھگتتے رہے۔ خود مسلم لیگ(ن) 12اکتوبر 1999ءکے بعد جنرل مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ اور میاں صاحب کی عمر قید بھلا سکتی ہے۔

مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی نےماضی سے سبق سیکھا جمہوریت تو خیر وہ پھر بھی نہ لا سکے بلکہ عمران دشمنی میں شاید بہت آگے چلے گئے جس کا احساس انہیں کچھ سال بعد ہو گا۔ اب آتے ہیں عمران اور پی ٹی آئی کی طرف کہ انکو کتنا سبق سیکھنا چاہیے اپنے طرز سیاست کے حوالے سے۔ مجھے یقین ہے کہ جیل نے انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو گا۔ ان کو یہ احساس تو ہو ہی گیا ہو گا کے پارٹی میں کون وفا دار ہے اور کون غدار ۔ کون ساتھ رہا اور کس کو انہوں نے عہدہ دے کر غلط فیصلہ کیا۔ اب وہ اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے بھی ذرا نظرثانی کریں۔ اچھا ہوتا اگر وہ انتقام کے بجائے مضبوط ادارے بناتے اور ذاتی مفاد سے باہر آتے۔ عمران کو اپنے ہی لوگوں پر جنہیں انہوں نے خود جیل میں ہوتے ہوئے عہدہ دئیے چیئرمین ہو یا سیکرٹری جنرل، اعتماد کرنا پڑے گا۔

ہماری بدقسمتی کے ہم ادارے نہ بنا پائے اور ہر ادارے میں حد سے زیادہ سیاسی مداخلت نے حکومتوں کی گورننس کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر کا فقدان زور پکڑ گیا ہے اور ماسوائے جماعت اسلامی کسی جماعت میں الیکشن کا کلچر نہیں ہے۔ لوگ اب سیاست میں نظریات کیلئے نہیں کاروبار کیلئے آ رہے ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔

سیاست سے اقدار اور اخلاقی قدریں ختم ہو جائیں تو معاشرہ ختم ہو جاتا ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت مضبوط ہے انکی عمارات اخلاقیات پر کھڑی ہیں وہاں الزام لگنا ہی وزیر یا وزیر اعظم کے استعفیٰ کا باعث بنتا ہے۔ ہم اس معیار سے بہت دور ہیں۔

پاک، بھارت تعلقات پر بھی ہمیں سنجیدہ غور و خوض کی ضرورت ہے۔ قوم میں جو اتحاد پیدا ہوا ہے اسے مثبت اور مضبوط کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا ہو گا۔ جنگ نہ ہو یہی دونوں ملکوں کیلئے بہتر ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ اتحاد ہے اور ایسے میں سیاسی تنائو کو کم کرنے کی خاطر پہل حکومت کو کرنی ہو گی اور اپوزیشن سے بامعنی مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرنا ہو گا ۔ اگر وزیر اعظم عمران سے بات نہیں کرسکتے تو بے شک نہ کریں حالانکہ یہ ایک غلط فیصلہ ہو گا مگر کم از کم جیل میں ان کی بہنوں اور پارٹی رہنمائوں کو ان سے ملاقات کی اجازت دے کر ہی کوئی مثبت پیغام دیا جا سکتا ہے۔ کم از کم 9مئی کا ٹرائل تو شروع کریں۔ سیاسی تنائو کم ہو گا بات تب ہی آگے بڑھے گی۔

تازہ ترین