• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبی ماہرین ایک طویل عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی جس کا بھارت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کا ارتکاب کر کے باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اپنے بزدلانہ حملے میں پاکستان کے ہائیڈرو اسٹرکچر کو بھی نشانہ بنایا۔بھارتی حکومت سندھ طاس معاہدے کے معطلی،دریاؤں کا رخ موڑنے،بگلیہار اور سلال ڈیموں کے ذریعے ہمارا پانی بند کر رہی ہے۔پاکستان میں پانی کی قلت شدید ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ذخیرہ کرنے کی سہولیات میں کمی،ناقص انتظام اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اسکے بڑے اسباب ہیں۔آبپاشی میں استعمال ہونے والا تقریبا 60فیصد پانی فرسودہ طریقوں،نہروں کی ناقص دیکھ بھال اور پانی کی تقسیم کے ناکارہ نظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔1951ءمیں فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر سالانہ تھی جو آج ایک ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اسکے پانچ سو کیوبک میٹر رہ جانے کا خدشہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پانی کی طلب میں اوسطا سالانہ 10فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارے آبی وسائل کے انتظام کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس حوالے سے اسلام آباد میں دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں 100مقالے پیش کیے گئے اور آبی نظم و نسق کیلئے تحقیق، ٹیکنالوجیز کے کردار کو مظبوط بنانے، ماحولیاتی تبدیلی، خوراک و زراعت، برفباری، گلیشیائی صورتحال اور آبی وسائل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے جدید حل تجویز کیے گئے جو وقت کا تقاضا بھی ہے۔قدرت نے وطن عزیز کو وافر آبی وسائل سے نوازا ہے جس کے لیے آبی ذخائر اور بارشی پانی محفوظ کرنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ماہرین بتاتے ہیں کہ ہر سال ذخیرہ نہ کیے جانے کے باعث ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ بارشی پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جس کے اثرات زراعت، صحت، خوراک اور معیشت پر پڑ رہے ہیں اور آبی تحفظ ناگزیر ہو گیا ہے۔

تازہ ترین