جب ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگا کر اسکے مستقبل کے خواب دیکھتی ہے تو وہ نہیں جانتی کہ اسکے بچے کی رگوں میں دوڑتا خون کسی دن اس کیلئے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش بن جائیگا۔ یہ کہانی تھیلیسیمیا کے مریضوں کی ہےجنکی زندگی روز خون کی بوند بوند سے جڑی ہے اور جنکے خواب صرف زندہ رہنے تک محدود ہو تے ہیں۔ہے تو یہ ایک موروثی مرض جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے اورجسم میں خون بنانے والی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے جسکے باعث مریض کو ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ ایک دن یا ایک مہینے کی بات نہیں، یہ پوری زندگی کا سفر ہے، ایک ایسا سفر جو سروں پر سوالیہ نشان کی طرح سوار رہتا ہےکہ اگلی بار خون کی بوتل کہاں سے آئیگی؟ ہر سال 8مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن محض ایک طبی مسئلے کی یاد دہانی نہیں بلکہ اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے آس پاس کتنی زندگیاں ہیں جو روزانہ صرف ایک خون کی بوتل کے انتظار میں مدھم پڑتی جا رہی ہیں۔ اس سال اس دن کا تھیم ہے : TOGETHER FOR THALASSAEMIA، UNITING COMMUNITIES, PRIORITIZING PATIENTS یعنی تھیلیسیمیا کیلئے ایک ساتھ، کمیونٹیز کو متحد کرنا، مریضوں کو ترجیح دینا۔پاکستان میں ہر سال تقریباً 5ہزار سے زائد بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وقت پر اسکریننگ کر لی جائے تو اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ صرف طبی نہیں سماجی بھی ہے۔ ہم اس بارے میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں، رشتے کرتے وقت خون کی مطابقت چیک کرنا غیر ضروری سمجھتے ہیں اور سماجی تعلقات کو میڈیکل رپورٹس پر فوقیت دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب علم موجود ہے، ٹیسٹ آسان ہیں، سندس فاؤنڈیشن اور اس جیسے دیگر ادارے موجود ہیں، قوانین بن چکے ہیں اور کچھ صوبوں میں بن رہے ہیں تو پھر خاموشی کیوں؟ اسکا جواب شاید ہماری اجتماعی بے حسی میں ہے جہاں ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو سامنے ہو اور وہ نظر انداز کرتے ہیں جو ہمیں براہ راست متاثر نہ کرے۔ تھیلیسیمیا کے عالمی دن پر مختلف تنظیمیں ریلیاں نکالتی ہیں، سیمینارز ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر سرخ ربن والی پروفائل تصاویر گردش کرتی ہیں۔ لیکن اگلے دن؟ خاموشی، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا شعور کا مطلب صرف ایک دن کا شور ہے؟ ایسا نہیں ہونا چاہئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس عفریت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے اور یہ کردار ایک دن نہیں ہر دن ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا ہو گا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے اگر ہر نوجوان شادی سے پہلے اپنا تھیلیسیمیا کیریئر ٹیسٹ کروا لے تو ہم اس مرض کے 90فیصد کیسز کو ختم کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے لوگ ٹیسٹ سے زیادہ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔میں گزشتہ ستائیس سال سے سندس فاؤنڈیشن کے ساتھ بطور صدر خدمات سرانجام دے رہا ہوں، تھیلیسیما کے ہزاروں مریضوں سے ملتا ہوں اور ان سے میرا تعلق میرے بچوں کی طرح ہے۔ ان بچوں کی زندگیوں کو بہت قریب سے جانتا ہوں لیکن اسی طرح کے ایک بچے سے ملاقات ہوئی جس کی عمر 9سال ہے اور جو ہر پندرہ دن بعد اپنی ماں کے ساتھ خون لینے آتا ہے۔ جب میں نے اس سےپوچھا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ تو اس نے ہنس کر جواب دیا :خون دینے والا۔ اس ایک جملے نے مجھے اندر سے توڑ دیا۔ ایک بچہ جو خود خون کا محتاج ہے، وہ دوسروں کو خون دینے کا خواب دیکھتا ہے اور ہم صحت مند لوگ خون کا عطیہ دینے کیلئے بھی حیلے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ سندس فاؤنڈیشن کا صدر ہونے کے ناطے میں نے ہمیشہ یہ سیکھا ہے کہ تھلیسیما کے ان مریضوں کیلئے بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے انکو خون کی منتقلی اور ادویات تو فراہم کر رہے ہیں لیکن مستقبل کا پاکستان تھلیسیما فری بنانے کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا۔ یہ ذمہ داری صرف حکومت، ڈاکٹروں یا نجی اداروں کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کی صحت کو ترجیح دیں، نوجوان ’’کیریئر ٹیسٹ‘‘ کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں، ابلاغ عامہ کے اداروں کو چاہئے کہ عام لوگوں میں آگاہی پھیلائیں کہ وہ سال میں صرف ایک بار نہیں مستقل بنیادوں پر خون عطیہ کریں۔ تھیلیسیمیا کی روک تھام کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے صرف لازمی اسکریننگ اور شعور کے ذریعے اس بیماری پر قابو پا لیا ہے۔ ایران، قبرص اور اٹلی جیسے ممالک اس کی مثال ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر کچھ ضروری اقدامات کر لیے جائیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کیریئر ٹیسٹ کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں تھیلیسیمیا آگاہی پروگرام مستقل بنیادوں پر شامل کیے جائیں۔ ہر ضلع میں فری اسکریننگ سنٹرز قائم کیے جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مستقل مہم چلائی جائے۔ خون عطیہ دینے کے کلچر کو عام کیا جائے، بلڈ ڈونر کارڈ کا اجرا کیا جائے اور اسکو شناختی کارڈ جیسا وقار دیا جائے۔ تھیلیسیمیا کے خلاف جنگ صرف میڈیکل فیلڈ کی نہیں، یہ ایک سماجی جنگ ہے۔ یہ ہمارے رویوں، ہمارے فیصلوں اور ہماری ترجیحات کی جنگ ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے، تب تک ہر سال 8مئی صرف ایک یاد دہانی رہے گا کہ ہم کچھ کر سکتے تھے، مگر ہم نے کچھ نہیں کیا۔ آج اگر ہم صرف ایک قدم بھی آگے بڑھیں، ایک خون کی بوتل عطیہ کریں، ایک دوست کو ٹیسٹ کا مشورہ دیں، ایک سوشل پوسٹ ہی شیئر کر دیں تو شاید کسی بچے کی سانسیں کچھ دن اور چل سکیں۔ کیونکہ ہزاروں بچوں کو انتظار ہے کہ اگلی بوتل کہاں سے آئیگی۔سندس فاؤنڈیشن ہزاروں پاکستانی بچوں کی اس امید کو پورا کر رہا ہے جہاں دس ہزار سے زائد تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کہ مریض رجسٹرڈ ہیں۔ یہ ادارہ گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور دیگر خون کی بیماریوں کے شکار ہزاروں بچوں کا سہارا ہے۔ اس وقت سندس فاؤنڈیشن میں جسٹرڈ مریض باقاعدگی سے علاج و معالجہ، خون کی مفت فراہمی، ادویات، لیبارٹری ٹیسٹ اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ سندس فاؤنڈیشن نہ صرف مریضوں کو جسمانی سہارا دیتی ہے بلکہ ان کے اہلِ خانہ کو ذہنی اور اخلاقی طور پر بھی مضبوط کرتی ہے۔ خون کے عطیات اور تھیلیسیمیا سے بچاؤ کیلئے ملک بھر میں مہمات، آگاہی سیمینارز اور فری کیمپس کے ذریعے عوام کو اس مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ سندس فاؤنڈیشن کاعزم صرف علاج نہیں، سندس فاؤنڈیشن کا خواب تھیلیسیمیا فری پاکستان ہے۔
(صاحب تحریر سندس فائونڈیشن کے بانی و صدر ہیں)