گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے میرے کالم ’سچ سے گریزاں‘ کے جواب میں حکومت پاکستان کے سابق وفاقی سیکرٹری اور میرے دوست آغا غضنفر نے آکسفورڈ سے درج ذیل نوٹ بھیجا :’’ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست کی تقریر درحقیقت اس سے بہت پہلے حذف کر دی گئی تھی۔ 1975-1976 میں جب مسٹر یوسف بچ، حامد جلال اور میں پاکستان پر انسائیکلوپیڈیا کتاب: ماضی اور حال (جس کو سٹیسی انٹرنیشنل، لندن، 1976 میں شائع کیا گیا)، پر کام کر رہے تھے تو ہمیں یہ تقریر نہ ملی۔ ریڈیو پاکستان نے ہمیں بتایا کہ یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات (جنرل شیر علی) نے انہیں کہا تھا کہ وہ ریکارڈنگ کو ضائع کر دیں، جو انہوں نے کر دی۔ جہاں بھر میں تلاش کرنے کے بعداس وقت کے ڈی جی، پی بی سی سید اجلال حیدر زیدی نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے اس کی ریکارڈنگ کا واحد سپول حاصل کیا، جس نے اس دن کے کل واقعات کی کوریج کی تھی۔ ریکارڈنگ میں کچھ خلا رہ گیا تھا، کچھ الفاظ ناقص معیار ہونے کی وجہ سے ریکارڈ ہونے سے رہ گئے تھے یا بہت آہستہ تھے۔ اس کے باوجود حامد جلال اور میں نے اس کا ایک ٹرانسکرپٹ تیار کیا جو پہلی بار پاکستان بک (1976) میں شائع ہوا اوریہی آج تک اس غیر معمولی تقریر کا سرکاری اور مستند متن ہے۔ اصل اے بی سی سپول پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو آرکائیو کے مقاصد کیلئے دیا گیا تھا جس نے اسے جنرل ضیاءالحق یا ان کے کرنل صدیق سالک کے حکم پر ضائع کر دیا، جنہوں نے بھٹو کے ساتھی کے طور پر مجھ پر بہت سختی کی تھی۔ مجھ پر الزام تھا کہ میں ایسے نظریے کی ترویج کر رہا ہوں جو پاکستان کے اسلامی خدوخال سے مناسبت نہیں رکھتا۔ میں اب اس بات کا واحد زندہ گواہ ہوں کہ ہم نے جناح کے الفاظ اور عہد نامہ میں تحریف کی، بلکہ اسے تلف بھی کر دیا۔ یہ آپ کی قابل قدر کوشش کی حمایت میں صرف ایک ثبوت ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کویہ گواہی من و عن قارئین کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔‘‘
ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ ممکنہ طور پر اہم وجہ ہے کہ ہم اپنا اور باقی دنیا کا سامنا کیوں نہیں کر پاتے۔ قومیں اپنی تاریخ کو محفوظ کرتی اور اس سے سیکھتی ہیں، اسے تباہ نہیں کرتیں۔ یہ وراثت ہمیں مستقبل میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ وہ ستون ہیں جن پر ریاست کی عمارت استوار ہے۔
جیسا کہ خدشہ محسوس کیا جارہا تھا، بھارت نے پاکستانی سرزمین کے اندر مختلف مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرکے جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم 36شہری شہید ہو چکے ہیں۔ فضائی جھڑپ میں پاکستان نے پانچ طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا جن میں سے تین کے نقصان کی تصدیق بھارت اور بین الاقوامی فورمز سے آنے والی رپورٹس سے ہوئی۔ ان اکاؤنٹس کے مطابق، گرائے جانے والے طیاروں میں رافیل بھی شامل ہے جسے بھارت اپنا قابل فخر اثاثہ خیال کرتا ہے۔
سات مئی بروز بدھ کو ہونے والے اجلاس میںقومی سلامتی کمیٹی نے ملک کے مختلف شہروں پر بھارتی حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی دو ٹوک مذمت کی۔ اس نے پاکستان کی مسلح افواج کو یہ اختیار دیا کہ وہ معصوم پاکستانی جانوں کے ضیاع کا بدلہ لینے کیلئے اپنے انتخاب کے وقت، جگہ اور طریقے پر مناسب کارروائی کریں۔جمعرات کو دن بھربھارتی ڈرونز نے ملک میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان میں سے زیادہ تر ڈرون مار گرائے گئے۔ اس پر پاکستان نے جچا تلا جواب دیا ہے جس میں بھارت کی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ جس دوران پاکستان اپنے آپشنز پر غور کر رہا ہے، دنیا اس سے تحمل سے کام لینے کی درخواست کر رہی ہے۔یہ واضح ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے واقعے کا ذمہ دار ٹھہرانے والے اپنے الزام کا ثبوت فراہم کرنے یا سچائی کو بے نقاب کرنے کیلئےآزادانہ انکوائری کرانے میں ناکامی اور پاکستان پر بلا اشتعال حملے کے باوجود بھارت کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دراصل اس پرایک طرح کا عالمی دبائو ہے۔
آئیے چند حقائق کا سامنا کرتے ہیں۔ بھارت نے واقعے کے صرف دس منٹ کے اندر اندر اس کا باقاعدہ الزام پاکستان پر لگا دیا۔ کیا بھارت کے پاس دہشت گردی کا مؤثر طریقے سے پتہ لگانے اور پاکستان پر الزام لگانے کیلئے، مطلوبہ شواہد اکٹھے کرنے کیلئے یہ کافی وقت تھا؟ نیز اگر اس واقعے کا امکان بھارتی حکام کے علم میں پہلے سے تھا تو اسے روکنے کیلئے ایسے اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ مودی سرکار سے اسکے اپنے ملک میں یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔ قصور واروں کا تعین کرنے کیلئے واقعے کی آزادانہ تحقیقات میں شامل ہونے سے بھارت کا انکار اور یکطرفہ کارروائی تمام بین الاقوامی چارٹر اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا پہلے سے ہی طے کر چکا تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہوں یا نہ ہوں، وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف بلااشتعال فوجی جارحیت کر گزرے گا۔
بھارت نے 2019میں بھی ایسا ہی کیا تھا جب اس نے اپنے دو طیارے فضائی جھڑپ میں کھو دیے تھے۔ اس کا ایک پائلٹ بھی پکڑا گیا جسے بعد میں جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کر دیا گیا۔ ہمارے جوابی حملے میں بھارتی اہداف کو درستی سے نشانہ بنایا گیا۔ بھارت نےایک بار پھر وہی حماقت کی ہے۔ لیکن اس وقت اور اب میں فرق ہے۔ 2019میں ہمارے پاس عمران خان جیسے عالمی قد کاٹھ رکھنے والے رہنما تھے۔ ان کا یہ اعلان کہ ’’ہم جوابی کارروائی کا سوچیں گے نہیں، ہم جوابی کارروائی کرگزریں گے‘‘ ہمارے کانوں میں گونجتا ہے۔ وہ اپنی بات پر قائم رہے اور بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اب ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ لیکن قیادت کا ایک بہت بڑا خلا موجود ہے۔ حکومت مہر بلب ہے۔ نواز شریف یا آصف علی زرداری کی طرف سے ایک بھی مذمتی بیان نہیں آیا جب کہ وزیر دفاع کے بیانات خود اپنے ملک پر فرد جرم عائد کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
پاکستان کو تحمل کیلئے بین الاقوامی دھمکی آمیز ترغیبات اور قومی عزت اور وقار بحال کرنے کیلئے فیصلہ کن اقدام کیلئے عوام کی مرضی کے درمیان انتخاب کرنا ہو گا۔ اگرچہ جوابی کارروائی کا منطقی جواز موجود ہے لیکن رانا ثنا اللہ کے بقول پاکستان جوابی کارروائی پہلے ہی کر چکا ہے، اور اگر بھارت نے مزید کوئی قدم نہ اٹھایا تو ہم ایک ذمہ دار ملک کے طور پر یہیں ہاتھ روک لیں گے۔ لیکن بھارت نے تو ہاتھ نہیں روکا۔ دوسری طرف غلطیوں پر غلطیاں ہمارے مستقبل کو دھندلا رہی ہیں۔ یہ وہ وقت ہےجب ہمیں عمران خان جیسی جرات مند قیادت کی ضرورت تھی لیکن وہ غیر قانونی طور پراڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)