• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے آئینے میں

مصنّف: سرور منیر راؤ

صفحات: 480، قیمت: 3570 روپے

ناشر: نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد۔

فون نمبر: 9261125- 051

سرور منیر راؤ کا نام علمی حلقوں کے لیے نیا نہیں کہ وہ پاکستان ٹیلی ویژن پر رپورٹنگ اور اپنی تحریروں کے حوالے سے نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔ عراق جنگ پر اُن کی کتب کا بہت شہرہ رہا اور اب اُنھوں نے قارئین کو یہ کتاب ہدیہ کی ہے۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’زائرین کے لیے مدینہ منوّرہ کے لینڈ اسکیپ میں تبدیلی کی وجہ سے مقدّس تاریخی آثار ڈھونڈنا مشکل ہوگئے ہیں۔ اِس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ عشّاق کی یہ تشنگی کم کرنے میں مدد کی جائے۔ اِسی لیے واقعات کی بجائے مقامات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام مقاماتِ مقدّسہ کا ذکر کیا جائے، جن کا حضور نبی پاکﷺ، اہلِ بیتؓ اور صحابۂ کرامؓ سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق رہا ہو۔ اِن جگہوں کے تعیّن اور نسبت سے متعلق نئے اور پرانے ماخذات سے مدد لی گئی ہے اور ان میں سے اکثر مقامات خُود جا کر بھی دیکھے ہیں۔‘‘یہ کتاب27 ابواب یا مرکزی عنوانات میں تقسیم کی گئی ہے۔ 

مدینہ منوّرہ (تاریخ وغیرہ)، ہجرتِ مدینہ، یہودِ مدینہ، مسجدِ نبویؐ(تاریخ)، روضۂ رسولﷺ، ریاض الجنّۃ، مسجدِ نبویؐ( زیارات)، اصحابِ صفہؓ، مسجدِ نبویؐ کے اہم دروازے، حجرات اُمّ المومنینؓ، حادثات مسجدِ نبویؐ، حادثات روضۂ رسولﷺِ جنّت البقیع، صحابۂ کرامؓ کے مکانات، مدینہ منوّرہ کی تاریخی مساجد، مدینہ منوّرہ کے کنویں، سانحات و حادثات مدینہ منوّرہ، وادی احد، آثارِ خندق، وادیٔ بدر، مدینہ منوّرہ کے دیگر تاریخی مقامات، حضور نبی کریمﷺ کے دعوتی خطوط، رحلتِ رسولﷺ، رحلت حضرت ابو بکر صدیقؓ، شہادت حضرت عُمر فاروقؓ، شہادت حضرت عثمان غنیؓ اور شہادت حضرت علی مرتضیٰ ؓ جیسے عنوانات سے کتاب کی قدر و قیمت اور مصنّف کی محنت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

چوں کہ سرور منیر راؤ رپورٹنگ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، اِس لیے اُنھوں نے تمام موضوعات پر بہت نپے تُلے انداز میں مواد فراہم کیا ہے، جب کہ تحقیقی مزاج بھی ہر ہر صفحے پر اُن کے ساتھ رہا ہے۔ یوں قارئین کی ایک معیاری و مستند کتاب تک رسائی ممکن ہوسکی ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، خواجہ شمس الدّین عظیمی (مرحوم)، آیت اللہ محسن نقوی، افتخار عارف، مجیب الرحمان شامی اور دیگر نے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے اِسے جہاں مصنّف کے لیے توشۂ آخرت قرار دیا ہے، وہیں اِسے شہرِ محبّت، مدینہ منوّرہ کے ہر زائر کے لیے ایک اَن مول تحفہ بھی کہا ہے اور بجا طور پر درست ہی کہا ہے۔