• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ اس تاریخ کا ذکر سب سے پہلے برطانیہ کی ایک صحافی خاتون ’’ایلائیس البینیا‘‘ نے کیا ہے۔میں اس کالم میں ایلائیس البینیا کی دریائے سندھ پر لکھی گئی کتاب Empires of Indus (دریائے سندھ کی سلطنتیں) میں سندھ کے بارے میں جو انتہائی اہم معلومات پیش کی گئی ہیں،شامل کر رہا ہوں۔ ایلائیس البینیا کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے بیوپاری پانچ ہزار سال قبل میسوپوٹیمیاکے ساتھ تجارت کرتے تھے‘ فارس کے ایک شہنشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے چھ سو سال قبل اس کا نقشہ بھی تیار کرایا‘ گوتم بدھ تخت اور تاج سے ہٹائے جانے کے بعد دریائے سندھ کے کنارے پر آکر آباد ہوا‘ یونانی بادشاہ اور افغان سلطان بھی بڑے لشکروں کے ساتھ آکر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد شہروں کو فتح کرتے رہے‘ سکھ دھرم کے بانی گرونانک کو دریائے سندھ میں داخل ہونے والی ایک ندی میں نہانے کے دوران کئی حقیقتوں کا علم ہوا‘ 1947ء تک دریائے سندھ ہندوستان کا ایک حصہ تھا‘ انڈیا کا نام بھی دریائے سندھ انڈس سے لیا گیا ہے۔ قدیم سنسکرت کے پنڈت اسے ’’سندھو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے‘ فارسیوں نے اسے ’’ہندو‘‘ میں تبدیل کیا اور یونانیوں نے لفظ HINDU میں سے حرف ایچ (H) نکال کر اسے انڈو (INDU) کردیا‘ چینیوں نے اسے انڈس کا نام دیا‘ اسی طرح اس نام میں سے انڈیا‘ ہندو اور انڈیز تخلیق ہوئے‘ سکندر اعظم کے دور کے تاریخ دانوں نے انڈس ویلی کے بارے میں لکھا اور دلچسپ کہانیاں تخلیق کیں۔ ان تاریخ دانوں نے اسے انڈیکا کا نام دیا‘ اس کتاب میں ایلائیس البینیا نے مزید لکھا ہے کہ’’ انڈس ویلی جو سیاست‘ مذہب اور ادب کی تاریخ کا تسلسل ہے اور جو تاریخ کئی سو سال تک پھیلی ہوئی ہے جس میں تبت اور بھارت بھی ملے ہوئے ہیں‘ وہ دریائے سندھ جس نے کراچی میں پاکستان کو جنم دیا اور ہزاروں سال پہلے تبت سے اپنا سفر شروع کیا‘ جب خود اس دریا کا جنم ہوا اس سفر کے دوران دریائے سندھ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا‘ یہ نام یقینی طور پر آمروں کے نام سے زیادہ خوبصورت ہیں‘ سندھ میں دریائے سندھ کو ’’پورالی ندی‘‘ (رخ تبدیل کرنے والا دریا) کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا کیونکہ میدانی علاقے میں داخل ہونے کے بعد یہ دریا اپنی مرضی سے سمندر کی طرف رخ کرتا تھا‘ دریا کبھی ایک جگہ سے تو کبھی کسی اور جگہ سے جاکر سمندر میں داخل ہوتا تھا اس علاقے میں لوگ دریائے سندھ کو سمندر کے نام سے بھی پکارتے تھے‘ یہ نام اس کی وسعت کی وجہ سے دیئے جاتے رہے ہیں‘ یہ دریا ویلیز اور تہذیبوں کو جنم دیتا رہا ہے‘ افغانستان کے نزدیک والے علاقوں (خیبرپختونخوا) سرحد صوبے کے علاقے میں اس کا نام ’’نیلاب‘‘ ہے‘ اس کو یہ نام اس کے نیلے رنگ کی وجہ سے دیا گیا‘ اس علاقے میں دریائے سندھ کو شیر دریا کا نام دیا جاتا ہے‘ دریائے سندھ کو ’’اباسین‘‘ یعنی’’ دریائوں کا باپ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا ہے جس علاقے سے پہاڑوں سے آنے والا پانی گزرتا ہے وہاں کے لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور وہ مختلف مذہبوں سے منسلک ہیں‘ اس وجہ سے ان علاقوں میں دریائے سندھ کے نام بھی مختلف ہیں‘ کچھ علاقوں میں دریائے سندھ کو ’’گیمتش‘‘ یعنی عظیم سیلاب سونو یعنی نر دریا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ لداخ اور تبت میں دریائے سندھ کو سنگی سامپو یعنی شیر دریا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ اس وقت تقسیم اور فوجی سرحدی چوکیوں کی وجہ سے دریائے سندھ کے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ہے مگر پھر بھی یہاں کے لوگوں کے قدیم تعلقات اب بھی قائم ہیں۔ اس کتاب میں دریائے سندھ کے بارے میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ کے صحرائی علاقوں سے تبت کے پہاڑوں تک ہاری اس دریا کی عبادت کرتے ہیں اور شاعر دریائے سندھ کی ثناء خوانی میں مصروف ہیں‘ اتنی عبادت اور ثناخوانی کسی بھی دیوتا یا سیاستدان کی نہیں کی جاتی حالانکہ آج بھی یہ دریا بس رسمی طور پر موجود ہے‘ قدیم سنسکرت کے اشلوکوں اور انگریزوں کے دور حکومت میں اسے جو حیثیت حاصل تھی اس میں اب کمی ضرور ہوئی ہے‘ انگریزوں کے دور حکومت میں مقصد اور سفری سہولتوں کیلئے دریائے سندھ کو ہر طرف بند باندھ کر قید کردیا گیا اور فوجی آمریت کے دور میں اس پر ڈیم تعمیر کئے گئے‘ ان اقدامات کے اثرات ان علاقوں کے لوگوں پر بھی ہوئے‘ اب اس دریا کے کناروں پر انسانیت کے بجائے وحشت کی حکمرانی ہے‘ آج جب میں دریائے سندھ کے بارے میں غور کرتی ہوں تو مجھے قدیم سنسکرت کے یہ اشلوک یاد آتے ہیں جو وہاں پجاریوں کی زبان ہوتے ہیں‘ ایسے ہی گیت یونانی سپاہیوں اور صوفی درویشوں کی زبان پر بھی رہے‘ صدیوں کا سفر کرتے ہوئے یہ الفاظ آج ہم تک پہنچتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم ہورہا ہے‘‘۔

اس کتاب کی ابتدا میں ایلائیس البینیا نے اپنے اس سفر کا تعارف کراتے ہوئے چند اہم سطور لکھی ہیں کہ جس علاقے میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں وہاں دریا کی حیثیت سونے سے کم نہیں ہوتی‘ پانی تخلیق کرتا ہے ‘ زندگی کی پہچان ہے‘ زراعت کا خالق ہے اور مذہب اور جنگ کا سبب بھی ہے‘ جب پہلی بار قدیم امریکی ہومر فاتحین کی آماجگاہ بن گئے‘ اس کے بعد دریا کے اوائلی شہروں نے یہاں جنم لیا ہے‘ تعمیرات شروع ہوئیں‘ ہندوستان کا قدیم سنسکرت ادب دریائوں کے بارے میں ہی ہے‘ اسلام کے مبلغ ان کناروں پر ظاہر ہوئے اس وجہ سے پاکستان ’’سندھو سبھیتا‘‘ کا نیا مالک کہلواتا ہے۔

تازہ ترین