پاکستان نے 28؍مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرکے ناقابل تسخیر ہونے کا اعلان کیا تو نذیر ناجی نے کالم لکھا ’’شکریہ واجپائی‘‘۔ کیونکہ بھارت 11؍مئی 1998ء کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو پاکستان کو یہ جواز میسر نہ آتا۔ اسی تناظر میں مجھے آج بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اگر مودی جی پلوامہ میں پیرا ملٹری فورس پر حملے اور پہلگام میں سیاحوں پر فائرنگ کے واقعات کے بعد پاکستان کیخلاف مہم جوئی کی حماقت نہ کرتے تو ہماری افواج کو ملکی دفاع کیلئے اپنے آپ کو سیسہ پلائی دیوار ثابت کرنے کا موقع میسر نہ آتا۔ دنیا کو ہرگز یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس خطے کے آسمانوں پر پاک فضائیہ کے شاہینوں کی اجارہ داری ہے اور اسے بھارت سمیت کوئی چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ پوری دنیا متجسس ہے کہ 6؍اور7؍مئی کی درمیانی شب پاک فضائیہ نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو کیسے بدترین شکست سے دوچار کیا اور انہونی کیسے کر دکھائی؟ بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد جب پاکستان نے بھارت کے دو مگ 21 جنگی طیارے مار گرائے اور پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرلیا گیا تو مودی نے کہا تھا کہ ہمارے پاس رافیل ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ بھارتی فضائیہ پراعتماد تھی کہ اس بار فرانسیسی جنگی جہاز رافیل انکے پاس ہیں جنہیں ناقابل شکست تصور کیا جاتا ہے مگر پاک فضائیہ نے انکا غرور خاک میں ملادیا۔ اس شب جو کچھ ہوا وہ محض ایک فضائی جھڑپ نہیں تھی بلکہ ایک دھماکہ خیز انکشاف تھا، جس نے بھارت کی فضائی برتری کا وہ فسانہ پاش پاش کر ڈالا، جو اسکے مغربی حواریوں نے برسوں سے پھیلا رکھا تھا۔ بھارتی فضائیہ کئی دنوں سے تیاری میں مصروف تھی۔ تقریباً 180بھارتی طیارے مغربی محاذ پر یلغار کرنے کو تیار تھے۔ ان کا مقصد واضح تھا، بالاکوٹ کی مہم جوئی کو دہرانا، پاکستان کے دفاع کا خواب چکنا چور کرنا، اور اس خطے میں اسٹرٹیجک برتری ثابت کرکے اپنی طاقت کی دھاک بٹھانا۔ رافیل جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اسکا نشانہ کبھی نہیں چوکتا، اسے وار کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ رافیل طیارے جنہیں جدید جنگی جہاز F-35سے بھی زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے، بے جان پرندوں کی طرح گرتے چلے گئے اور J-10C سے مات کھا گئے۔ تو کیا یہ ٹیکنالوجی کی برتری تھی؟ چین کے مقابلے میں فرانسیسی ہتھیاروں کی جیت؟ یہ تاثر یکسر غلط اور حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ کیا آپ کو 1965ء کی جنگ یاد نہیں؟ پاکستان کے پاس امریکہ ساختہ پرانے جنگی جہاز F-86 سیبر ہوا کرتے تھے جبکہ بھارتی فضائیہ برطانیہ کے بنائے ہوئے جدید ہاکر ہنٹر طیارے اُڑا رہی تھی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ پاک فضائیہ کے سیبر طیارے بھارتی ہاکر ہنٹر جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مگر 17روزہ جنگ کے دوران بھارت کے 110جنگی جہاز تباہ ہوئے جبکہ پاک فضائیہ کے 18لڑاکا طیارے تباہ ہوئے۔ تب روس کے مگ 21جدید ترین طیاروں میں شامل ہوتے تھے مگر پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اسکواڈرن لیڈر سید سجاد حیدر کی قیادت میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ان بھارتی طیاروں کو زمین پر ہی نیست و نابود کردیا۔ اگر کامیابی کا انحصار محض ٹیکنالوجی پر ہی ہوتا تو بھارت کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے، روس کا بنایا ہوا دفاعی نظام S-400اور اسرائیلی ڈرون طیارے HAROP۔ اس لڑائی کے نتیجے میں مغربی ٹیکنالوجی کی برتری کا سحر ضرور ٹوٹا ہے، فرانس کے دفاعی معاہدے خطرے میں پڑ گئے ہیں اور چین کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی مانگ بڑھ گئی ہے مگر یہ کارنامہ پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں سر انجام پایا ہے۔ اب کھیل بدل چکا ہے، بھارت کی فضائی برتری کا خواب 36رافیل طیاروں کی خریداری، Spectra EW ریڈارز، اور فرانسیسی انجینئرنگ پر مبنی نظام فضائوں میں چکنا چور ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی کو سعودی عرب، ترکیہ اور امریکہ سے جنگ بندی کیلئے رجوع کرنا پڑا۔
قوموں کی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بار بار نہیں آتے۔ ہمیں دوسری بار اپنا تشخص بحال کرنے، غلطیاں سدھارنے اور نئی شروعات کرنے کا موقع ملا ہے۔ پہلی بار ہم 28مئی 1998ء کو سرخرو ہوئے تھے جب اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز ملا۔ وہ دوست ممالک جو پاکستان کو خاطر میں نہ لاتے تھے، انکے ہاں ہمیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد عائد ہونیوالی معاشی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کی مشکلات کا اِدراک کیا گیا اور انہیں حل کرنے میں تعاون کیا گیا۔ مگر گزشتہ چند برس سے ہر دوست دشمن کے ہاں یہ پہچان بن چکی ہے کہ جب دیکھو کشکول لیکر امداد مانگنے آجاتے ہیں۔ بھارت نے بھی ہماری اسی دُکھتی رگ کو دبانے کی کوشش کی اور آئی ایم ایف سے قرضوں کی نئی قسط رکوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اب جبکہ مشرق و مغرب میں اک نئے دور کا آغاز ہے، اپنے ہی نہیں پرائے بھی ہماری دفاعی صلاحیتوں کے معترف ہوچکے ہیں، سب پر یہ حقیقت مترشح ہوچکی ہے کہ پاکستان ترنوالہ نہیں اور اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے حلیف جنہوں نے برسہا برس سے ہر کڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیا، انہیں بھی یہ خوشگوار احساس ہوا ہے کہ پاکستان پر کی گئی سرمایہ کاری ضائع نہیں گئی بلکہ بہت منافع بخش ثابت ہوئی ہے۔ مسلم ممالک ہماری قوت پر ناز کر رہے ہیں تو یہ وقت ہے خود کو سنبھالنے کا۔ یہ موقع ہے ،پاکستان کی معاشی مشکلات دور کرکے اپنی تقدیر بدلنے کا۔ جتنی یکجہتی اور یگانگت کا مظاہرہ بھارت سے پانچ روزہ جنگ کے دوران کیا گیا، اگر اتنے ہی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ ملک کو درپیش دیگر مسائل سے نمٹنے کیلئے کیا جائے تو ہم پاکستان کو معیشت کے محاذ پر بھی سبقت دلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ممنون اور شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا۔