• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام، اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق ہم 25.5کروڑ پاکستان 8.23ارب پر مشتمل عالمی آبادی کا کل 3.10فیصد ہیں اور ہمارا ستم گر ہمسایہ بھارت اپنی 1.463ارب آبادی کیساتھ 17.7فیصد۔ یوں بالحاظ آبادی ہمسایہ ہم سے قریب قریب چھ گنابڑا۔ اپنی اس حیثیت کا بھوت اس نے خود ہی قیام پاکستان سے اپنے سرپر سوار کیا ہوا ہے۔ بلکہ پاکستان پر ہی نہیں پورے جنوبی ایشیائی خطے پر اپنی بالادستی کا مہلک خناس جسے پاکستان نے تو کبھی نہیں مانا۔ اگرچہ بھارت میں جاگیرداری کی بڑی قباحت آزادی کے پہلے تین سال میں ہی بڑے ریاستی فیصلے اور بندوبست سے اکھاڑ دی گئی تھی لیکن خطے خصوصاً پاکستان سے خود کو بڑا اور چوہدری منوانے کا خناس ختم ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی اکڑ اور پکڑ میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ کہ آزادی کے بعد یہ امتیاز بھی بھارت کو ہی حاصل ہوا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں وہ چھوٹے ہمسایوں کو مکمل اور مرضی کے اثر میں لانے میں کامیاب ہوا کہ: کل نو آزاد پسماندہ و ترقی پذیر دنیا میں بھارت ہی سب سے پہلے اور سب سے بڑی سرزمین آئین بنا۔ بلارکاوٹ یہاں آئینی وسیاسی عمل جاری و ساری رہا۔ یوں درجنوں انتخابی عمل اس کے مسلسل اور بڑھتے سیاسی استحکام کا باعث بنے، جس کے جملہ اہم فوائد و ثمرات اسے حاصل ہوئے، داخلی استحکام اور عالمی اہمیت اور امیج کے حوالے سے ترقی پذیر جمہوری عمل اور نظام نے بھی بھارت کو آبادی کے حجم کے علاوہ اہم ملک کے طور پر منوایا۔ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں ایک مختصر عرصے کے لئے ملک میں مختصر دورانیے کی ایمرجنسی کے نفاذ کے علاوہ جاری و ساری سیاسی عمل میں کوئی جھول نہیں آیا، جو اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے شدید ردعمل کیساتھ کافور ہوگیا تھا۔ ترقی پذیر دنیا میں بھارت کے اس کمال کے یہ دو ہی بڑے محرکات تھے جاگیر داری کا خاتمہ اور آئینی عمل کی روانی۔ سو آزادی کے بعد بھارت نے اپنے داخلی استحکام و ترقی اور خارجی تعلقات سے اپنے مفادات کے حصول کا نتیجہ خیز فائدہ اتنااٹھایا کہ آج اسکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈائس پورہ امریکی انتظامی ہرارکی اور مرکز اقتدار (وائٹ ہائوس) کا قابل ذکر شریک ہے۔ بھارت کے ان ہی اہم حصولات اور پاکستان مقابلے اپنی داخلی ترقی جاریہ کے باوجود اسکے پاکستان بارے تنگ نظری، تعصب اور نظریہ میں کبھی کسی دور میں کمی نہیں آئی۔ جو لچک پیدا ہوئی اس کے حالات و صورتحال خود پاکستان نے اپنی اہمیت و حیثیت منوا کر پیدا کی۔ خواہ یہ آنجہانی واجپائی کی مینار پاکستان پر آمد ہو یا سندھ طاس کا معاہدہ اور تاشقند و شملہ معاہدہ۔ لیکن پاکستان کو اپنے زیر اثر و تسلط میں رکھنے اور اس پر مکمل اور مسلسل بالادستی قائم رکھنے کی بنیا ذہنیت کو آئین کا کامیاب نفاذ اور جاری جمہوری و سیاسی عمل ختم نہ کر سکا۔ اس کی سب سے بڑی اور جاری مثال متنازعہ کشمیر پر بلاامتیاز حکومت غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنا ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ عالمی فورم اور پاکستان کو مسلسل ٹالنے کی ذہنیت اور دنیا و پاکستان سے اسے اپنا اٹوٹ انگ تسلیم کرانے کی اب مکمل ثابت شدہ ناکام کوشش کے بعد کشمیریوں پر بے تحاشہ مظالم ڈھاتے اور بین الاقوامی فیصلوں کو دھڑلے سے روندتے کشمیریوں سے وعدے وعید کو جوتی کی نوک پر ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ‘‘کو اٹل بھارتی قومی موقف بنا لیا۔

قارئین کرام! ہر عمر کے تمام پاکستانیوں اور نئی نسل کے اذہان میں اسے بسانا مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ناگزیر اور اولین قومی ضرورت ہے کہ ہم سب اپنی اس حساس اور بنیادی قومی ضرورت کو مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک برقرار رکھیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے پرامن اور پائیدار حل، کشمیریوں کو ’’پاکستان کے ساتھ یا بھارت کے؟‘‘کے سوال پر رائے شماری سے ان کو حق خود ارادیت دلانا خود کشمیریوں کے حق برابر جتنا پاکستان کے لئے ناگزیر ہے۔ کشمیر ہر لحاظ سے قدرتی و فطری تاریخی، سیاسی فیصلوں (پاک بھارت مشترکہ اور عالمی) کے مطابق سرزمین و نام کے حوالے سے بھی لازمی جزو اور ہماری سلامتی اور پرامن قومی زندگی کے جاری وساری رہنے کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کی اسی حیثیت کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ‘‘ کا بیانیہ قوم کو دیا اور مملکت بنتے ہی دنیا پر واضح کیا تھا۔ اگر یہ بیانیہ پاکستانیوں کے ایمان کی حد تک یقین و عزم میں نہ ڈھلتا تو یقیناً پاکستان آج بھوٹان، حسینہ واجد کے بنگلہ دیش اور شاہی نیپالی حکومت کی طرح نئی دہلی کے زیر دست و اثر ہوتا، جو کبھی ہوا نہ ہوگا۔اب تو بھارت اپنی خیر منائے، حالیہ اور کسی حد تک جاری جنگ و کشیدگی میں پاکستان نے اپنی بالادستی خطے پر تو نہیں (کہ پاکستان کی یہ ذہنیت ہی نہیں) البتہ بھارت پر قائم کر دی ہے۔ خطہ تو افغانستان سوا، مودی سے پہلے ہی نالاں ہے۔ سیاسی ابلاغ و سفارت کاری سے لے کر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن فرنٹ، وار اسٹرٹیجی اینڈ پلاننگ سے لے کر ڈرون اسٹرائیک اینڈ ڈیفنس تک ، مائونٹین وار سے لے کر راکٹ اسٹرائیکس تک اور سب سے بڑھ کر سائبر اور الیکٹرانک وارفیئر سےلے کر سائیکلو لوجیکل وارفیئر ایل او سی پر بری فوج کی مائونٹین وار میں زبردست کامیابی، رافیل و ایس 400کی تباہی تک بھارتی بالادستی کا غرور و تکبر خاک میں مل گیا ہے۔ اس کے رویے اور ایکشنز کو ناکام بنانے کی طویل مزاحمت کے بعد پاکستان نے پانچ دن کی جنگ میں ہی بالادستی کے 76سالہ بھارتی خواب کو بھی چکنا چور کردیا ہے۔ بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں پاک فضائیہ کی مہارت اور پروفیشنلز کی بھارت مقابلے کئی گنا برتری اور باحیثیت مجموعی چھ گنا دشمن کے مقابلے ففتھ جنریشن وار میں پاکستان کے ثابت شدہ غلبے نے بھارتی جارحیت کی عشروں سے جاری تیاری بڑے بڑے فیصلوں اور آپریشنز کے پرخچے 5گھنٹے کی دنیا میں فضائیہ کی سب سے بڑی جنگ میں اڑا کر بھارتی سرزمین پر بکھیر دیئے۔ ابھی تک بھارت نے اپنی جارحیت میں بحری سرحدوں کا رخ نہیں کیا، ایک ہی بھارتی جہاز نے اشارہ دیا تو پاک بحر یہ اتنی سرعت سے آئی کہ بھارتی بحریہ ٹھٹک کر رہ گئی۔

1947ء میں آزاد کشمیر کی باز یابی پر پریشان ہو کر نہرو کی سلامتی کونسل سے جنگ بند کرانے کی اپیل سے لے کر صدر ٹرمپ سے چیختے چلاتے سیز فائر کی بھیک تک بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہندو انتہا پسندی کا زہر پاکستان نے برسوں کے لئے تو نکال دیا ہے۔ اب بھارتی عوام اپنی بزدل سازشی اور جارحانہ لیڈ ر شپ کو اپنے ہی گھر میں گھیر گھار کر معقولیت کا سفر پکڑے محاسبہ کریں اور پاکستان نے تو اس کی سرکوبی اپنے بڑے اقتصادی اور سیاسی بحران میں کی ہے۔ دیکھ لیا ناںمودی نے وہ پاکستان میں کتنی ہی پروکسی وار اور اپنی سیاسی و تجارتی دوستیاں و یاریاں پیدا کرلے، پاک عوام و افواج کے اتحاد و جہادی رنگ ڈھنگ اس نے دیکھ لیا۔ نہیں دیکھا تو اپنے گرویا بڈی ڈونلڈ ٹرمپ سے مددلے۔ جس نے یاری نبھاتے بھارتی لیڈر شپ کو بچاتے ہی آگے پاکستانی بالادستی سے بھی بچانے کے لئے مسئلہ کشمیر خود بٹھا کر حل کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ بھارتی شکست خوردہ لیڈر شپ اس کا فائدہ اٹھائے،پاکستان بھی مقبوضہ کشمیر کی فلیش پوائنٹ حیثیت کو دنیاکوخبردار کرنے کیلئے اپنی پرامن سفارتی جدوجہد جاری رکھے۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین