• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہونی چاہئے کہ انڈیا کی موجودہ سوچ صرف مودی کے بر سر اقتدار آنے یا دو تین عشروں پر محیط انڈین سیاست کی حرکیات کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچ کا تسلسل ہے جو آزادی سے قبل کی کانگریس میں بھی موجود تھا ، ابھی حال ہی میں ایک انڈین فلم کی وجہ سے انڈیا میں فسادات تک ہوئے ، خالص ہندو حکومت قائم کرنے اور دوسروں کو نہ جینے دینے کی علامتی شخصیات شیوا جی / سمبھا جی کو جب اس طرح ہیروز کے روپ میں پیش کیا گیا تو تصور یہ ہوا کہ اس ہیرو گری کی وجہ مودی کی سیاست ہے جو ان گڑے مردوں کو اکھاڑ رہا ہے حالانکہ ان شخصیات کی کانگریس میں یہ علامتی حیثیت تھی کہ جب 1935میں مہاراشٹر میں کانگریس کا اجلاس ہوا تو مندوبین کے داخلے کیلئے بنائے گئے گیٹ کا ’’نام شیوا جی گیٹ‘‘ رکھا گیا، خیال رہے کہ اس وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسی شخصیت بھی کانگریس کا حصہ تھی مگر رتی برابر پروا نہیں کی گئی، میں 2009میں انڈیا گیا تو راہول گاندھی سے ان کی رہائش گاہ پر میری ون ٹو ون ملاقات ہوئی، ہم یہاں مودی کو روتے ہیں کہ متعصب ہے مگر راہول گاندھی کے خیالات اور سوچ سوائے برتری بلکہ جنوبی ایشیا پر حاکمیت کے علاوہ اور کچھ نظرنہ آئی۔ ان باتوں کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ موجودہ صورتحال کو صرف مودی تک محدود کرکے دیکھنا درست نہیں بلکہ یہ وہ سوچ ہے کہ جس سے ہمارا واسطہ پڑ رہا ہے اور کوئی بہت بڑی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو گئی تو پڑتا رہے گا۔ مگر انڈیا کے حملے نے اور اسکے نتائج نے دنیا کو بری طرح سے چونکا دیا ہے، صورت حال یہ تھی کہ دنیا میں ایک وہم قائم ہو چکا تھا کہ انڈیا کم از کم اس خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، اس وہم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈیا دنیا کے سامنے اپنا ایک تشخص تشکیل دے چکا تھا اور اس تشخص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسٹریٹجک معاہدوں جیسے جاپان سے سلامتی کے معاہدے، کواڈز (آسٹریلیا، انڈیا، جاپان، امریکہ)، آئی ٹو یو ٹو (اسرائیل، انڈیا، یو اے ای، امریکہ) جیسے معاہدوں میں شمولیت سے لیکر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے خواب تک دیکھ رہا تھا کیوں کہ ابہام یہ قائم ہو گیا تھا کہ انڈیا کے پاس سوفٹ ویئر سمیت اس قدر دفاعی طاقت ہے کہ اسے روکا نہیں جا سکتا اور پھر یہ طلسم ٹوٹ گیا۔ وزیر اعظم اور مسلح افواج کے سربراہان کی قیادت میں لیہ سے لے کر سرکريک تک پاک فضائیہ نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ زمین پر چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے پاک فضائیہ کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایئر وائس مارشل عاصم رانا نے دشمن کے گیم پلان کو الٹنے کیلئے اس انداز میں فضائیہ کے رد عمل کو ترتیب دے رکھا تھا کہ دشمن تو دشمن ایک دنیا حیران رہ گئی۔ دنیا میں یہ تصور قائم کردیا گیا تھا کہ فوجی ٹیکنالوجی کے حوالے سے انڈیا کو بہت سبقت حاصل ہو چکی ہے مگر جب ایس 400اپنی افاديت کھو بیٹھا تو اس تصور کو تیزی سے دھچکا لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماڈرن دنیا کی سب سے بڑی فضائی جنگ میں 75انڈین جہاز پاک فضائیہ کے 40لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں ریت کی دیوار بھی ثابت نہ ہو سکے۔ اس جنگی صورتحال میں پاکستان کے پاس یہ نادر موقع انڈیا کی جانب سے آیا کہ پاکستان اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکے۔ ایس ایچ 15گنز، نصر، فتح 1، 2 اور پی ایل 15میزائلوں کے استعمال سے اپنی فوجی صلاحیت کا اظہار کرے۔ مودی یہ احمقانہ اقدام نہ کرتا توانڈیا کے اس فوجی بھرم کو رسوا کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔80 سے 90ارب ڈالر کے درمیان رہنے والے دفاعی بجٹ کے باوجود انڈیا تو پاکستان کے ابتدائی رد عمل کا بھی مقابلہ نہیں کر سکا تو اس کو علاقائی تھانیدار کیسے بنایا جا سکتا ہے بھلا اب اس سے ڈرے گا ہی کون؟ پاک فضائیہ کے پہلے رد عمل سے ہی دنیا کی آنکھیں کھل گئی تھیں اور اس جنگ کے ممکنہ نتائج کا ادراک دنیا کو ہونے لگا تھا جب ابھی پاکستان نے انڈیا پر میزائلوں کی برسات نہیں کی تھی توسفارتی دنیا خاموش تماشائی بنے رہنے سے ہٹ کر اپنا کردار ادا کرنے کی طرف چل پڑی تھی۔ پاکستان میں موجود اہم ممالک کے سفارت کارجمعہ کی دوپہر کے بعد بہت متحرک ہو چکے تھے اور یہ جاننے کی جستجو میں تھے کہ پاکستان جب یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اب انڈیا میں گھس کر مارے گا تو کیسے مارے گا اور اس کا اسکیل کتنا ہو گا؟۔ اس انڈیا کی کمپیوٹر سے لے کر دفاعی طاقت کے بھرم کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے کے بعد صرف جنوبی ایشیا کے حوالے سے ہی عالمی طاقتوں کی جانب سے بنائے گئے منظر نامے میں ہی تبدیلی نہیں آئیگی بلکہ پورے بحر ہند میں ایک تبدیلی منتظر ہوگی مگر اس کیلئے بہت ضروری ہے کہ پاکستان سفارتی سطح پر اپنے پتے درست انداز میں کھیلے کیوں کہ اب بقایا جنگ سفارت کاری کی دنیا میں ہی ہو گی۔

تازہ ترین