پاکستان اسٹیل ملز نے، جس کا قیام روس کے تعاون سے1970ءکی دہائی میں عمل میں آیا تھا، پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی کمپلیکس کی حیثیت سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا لیکن بدانتظامی، بدعنوانی اور بدلتی ہوئی اقتصادی پالیسیاں بتدریج اس کے زوال کا باعث بنیں۔ تاہم جدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی پر مبنی ایک اسٹیل مل بہرصورت ملک کی ضرورت ہے اوریہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان کراچی میں نئی اسٹیل مل کے قیام کیلئے حالیہ برسوں کے دوران شروع ہونے والی بات چیت میں مثبت پیش رفت جاری ہے ۔ ایک سال پہلے صدر پاکستان اور روسی حکام کے درمیان ہونیوالی ملاقات میںپاکستان میں نئی اسٹیل مل قائم کرنے پر غور شروع کیا گیا جبکہ گزشتہ ستمبر میں روس کے نائب وزیر صنعت و تجارت اور اس وقت کے وفاقی وزیر صنعت و پیداوارنے اس ضمن میں ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق کیا اور گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و پیداوار اور روسی وفد کے نمائندے کی ملاقات میں کراچی میں نئی اسٹیل مل کے قیام پر اتفاق کیا گیا ۔ روسی حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی 700ایکڑ اراضی کو نئی اسٹیل مل قائم کرنے کیلئے مختص کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ واضح رہے کہ پاکستان کے پاس محتاط اندازے کے مطابق آئرن ایسک کے 1.887 بلین ٹن کے ذخائر ذخائر موجود ہیں ،اس کے باوجود ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے سالانہ 2.7 بلین ڈالر کی مالیت کا آئرن اور اسٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ان حقائق سے نئی اسٹیل مل کے قیام کی ضرورت واہمیت پوری طرح عیاں ہے لیکن سابقہ تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئی اسٹیل مل کے معاملات کاکرپشن اور بدانتظامی سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جانالازمی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب روز اول سے ہر مرحلے پر شفافیت اور میرٹ کا مکمل اہتمام کیا جائے۔