ملک پر واجب الادا قرضوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1947ء سے لیکر اب تک کے سفر کے دوران ان میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا ہے اور ادائیگیاں درد سر بنی رہی ہیں۔ مرکزی بینک کی دستاویز کے مطابق مارچ 2025ء تک پاکستان پر قرضے اور واجبات 89ہزار 834ارب روپے ہو گئے ہیں۔2025 ء میں بیرونی قرضوں کی واپسی 26ارب ڈالر تھی جو ابتدائی طور پر مشکل کام لگتا تھا تاہم حکومت اپنی مثبت پالیسیوں کی بدولت ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے۔ مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں (جولائی تا مارچ) میں مجموعی طور پر 7ارب 47کروڑ ڈالر بطور خالص قرض واپس کیے جبکہ 3ارب 99کروڑ ڈالر سود کی مد میں ادا کیے۔ اس طرح مجموعی غیر ملکی قرض کی واپسی 11 ارب 46کروڑ 60لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔ دوسری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) مالی سال 2025ء کے دوران پاکستان نے سب سے زیادہ غیر ملکی قرض واپس کیا جو 4 ارب 17کروڑ 60لاکھ ڈالر تھا جس میں ایک ارب 39 کروڑ ڈالر سود کی ادائیگی شامل تھی۔تیسری سہ ماہی میں 3ارب 81کروڑ 30لاکھ ڈالر سے زائد کے بیرونی قرض اور سود کی ادائیگی ہوئی جس میں ایک ارب 26کروڑ سے زائد رقم سود کی مد میں ادا کی گئی۔ پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں 2ارب 13 کروڑ 40لاکھ ڈالر کی رقم بطور خالص قرض واپس کی گئی جبکہ ایک ارب 34کروڑ 30لاکھ ڈالر سود کے طور پر ادا کیے گئے۔ حکومت کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے تدابیر اختیار کرنے کے نتیجے میں مثبت پیشرفت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئی ہے۔ حکومت اس وقت بیرونی اکاؤنٹ کے حوالے سے بھی نسبتاً ایک آرام دہ صورتحال میں ہے کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ مالی سال کے پہلے 9ماہ کے دوران ایک ارب 80کروڑ ڈالر کا سر پلس رہا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ رقوم کی آمد، آئی ایم ایف، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی مالی معاونت کی وجہ سے بھی ممکنہ منفی اثرات کم کرنے میں مدد ملی ہے۔