• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیر شاہ سوری تادم مرگ مضطرب اور بے چین روح کی مانند بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے رہے اور اکتوبر 1544ء میںجب آفتاب زیست غروب ہونے کو تھا تو قلعہ کالنجر فتح کرنے نکل پڑے اور یہ ان کی آخری جنگی مہم ثابت ہوئی۔ یہ 1230فٹ کی بلندی پر قائم ناقابل تسخیرقلعہ تھا۔ شیر شاہ سوری کی فوج نے قلعہ کالنجر کامحاصرہ کرلیا اور پھر سات ماہ تک یہ گھیرائو جاری رہا۔ قلعے پر حملہ کرنے کیلئے شیر شاہ سوری نے بہت بلند مینار اور برجیاں تعمیر کروائیں۔ زیر زمین سرنگ کھود کر قلعے تک لے جائی گئی اور پھر بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں۔ 21مئی 1545ء کو تیاریاں مکمل ہونے کے بعد قلعہ کالنجر پرحملہ کر دیا گیا۔ شیر شاہ سوری خود اپنی نگرانی میں بمباری کروا رہا تھا کہ اس دوران ایک گولہ قلعے کی دیوار سے ٹکرانے کے بعد واپس آیا اور گولوں کے ذخیرے پر آ گرا۔ آتش گیر مادہ پھٹنے سے بہت زور دار دھماکہ ہوا جس میں کئی جنگجو مارے گئے اور شیر شاہ سوری بھی جھلس گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پبلشرز کی شائع کردہ کتاب Sher Sha suri :A Fresh perspective کے مطابق شیر شاہ سوری بستر مرگ پر تھا اور اسکے امراء تکلیف دیکھ کر ہمدردی کا اظہار کرتے تو وہ کہتا کہ قلعہ فتح کر کے مجھے خوشخبری دو، یہی میرے درد کا علاج ہے۔ شیر شاہ سوری نے اپنے داماد عیسیٰ خان حاجب کو خیمے میں بلایا اور اسے قلعہ فتح کرنے کا ٹاسک دیا۔ نماز ظہر کے بعد قلعہ فتح ہو گیا ۔ شیر شاہ سوری کو جیسے ہی قلعہ فتح کرنے کی خبر ملی اس کی روح پرواز کر گئی۔ شیر شاہ سوری پر جب نزع کا عالم طاری تھا اور انہوں نے زندگی اور موت کی کشمش کے دوران ادھورے کاموں پر افسوس کا اظہار کیا تو ان کے رئوسا، مشیروں اور درباریوں نے کہا کہ آپ نے پانچ سال کے مختصر عرصہ میں جتنے کارنامے سرنجام دیئے اور رفاہ عامہ کیلئےجو اقدامات کیے، اس سے پہلے تخت نشین حکمرانوں کو اس کی توفیق نہیں ہوئی، شیر شاہ سوری نے کہا کہ کچھ ارمان اب بھی باقی ہیں۔ شیر شاہ سوری نے اس موقع پر اپنی چار خواہشوں کا ذکر کیا جو پوری نہ ہو سکیں اور حسرتوں میں تبدیل ہو گئیں ۔

’’تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی‘‘ نامی کتاب میں دستیاب تفصیل کے مطابق شیر شاہ سوری نے کہا کہ میری پہلی خواہش یہ تھی کہ ولایت روہ (یعنی افغانستان) کو وہاں سے ویران کر کے، دریائے اٹک سے لاہور تک اور پھر کوہ نندنہ سے کوہ شوالک تک آباد کروں تاکہ جب بھی کوئی مغل حملہ آور آئے تو فوراً پتہ چل جائے اور وہ ہندوستان میں داخل نہ ہو سکے۔ میری دوسری خواہش یہ تھی کہ لاہور شہر کو ویران کر دوں کیونکہ یہ عظیم شہر غنیم کیلئے باعث کشش اور پناہ گاہ بنتا ہے۔ تیسری خواہش یہ تھی کہ سمندری راستے میں مختلف مقامات پر 50،50 بحری جہازوں کی سرائے بنائوں جو اس قدر مضبوط ہو کہ باد و باراں کے کسی طوفان کا اس پر اثر نہ ہو۔ یہ اسلئے کہ حج اور عمرہ کی نیت سے مکہ معظمہ جانیوالے بے خوف وخطر سفر کر سکیں۔ میری چوتھی آرزو یہ تھی کہ پانی پت کے میدان میں سلطان ابراہیم لودھی کی قبر پر شاندار مقبرہ تعمیر کروں اور اس کے سامنے فاتح پانی پت ظہیر الدین بابر کی یادگار تعمیر کروں اور ان بادشاہوں کے بھی مقبرے بنائوں جنہیں میں نے خود شہید کیا۔

محولا بالا تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لاہور کو کئی بار تاراج کرنے کی کوشش کی گئی۔ غزنوی، غوری، لودھی، مغل اور سکھ حکمرانوں نے اس شہر بے مثال کو روند ڈالا۔ مگر لاہور اپنے باسیوں کے قلب و روح میں بستا ہے۔ زندہ دلان لاہور نے اس کی رونق اور تازگی ختم نہیں ہونے دی۔ لاہور کو مٹانے کی خواہش رکھنے والے مٹی میں مل گئے مگر یہ شہر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

1965ء میں بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا تو پہلی فرصت میں لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی فوج کے سپہ سالار جنرل جے این چوہدری نے کہا تھا، ہم لاہور جمخانہ کلب میں فتح کا جشن منائیں گے اور میں وہاں ایک بڑا پیگ لگائوں گا۔ خواہش کو خبر بنانے کی دھن میں لاہور پر بھارتی فوج کے قبضے کا اعلان کر دیا گیا مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ پاک فوج کے جوان دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت لڑائی کے دوران بھی تخیلاتی طور پر لاہور فتح کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بھارتی میڈیا، جس پر بجا طور پر ’’گودی میڈیا‘‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے، نے خبر دی کہ بھارتی افواج نے نہ صرف کراچی بندرگاہ کو تباہ کر دیا ہے بلکہ لاہور بندرگاہ پر بھی کامیابی سے حملہ کیا ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں جب راوی لاہور شہر کی دیواروں کے ساتھ بہتا تھا تب یہاں نہ صرف گھاٹ ہوا کرتا تھا بلکہ لاہور میں بحری جہاز بنائے جاتے تھے اور دریائی راستوں سے تجارت بھی ہوا کرتی تھی مگر بھارتی میڈیا کے حالیہ دعوئوں کے بعد لاہور ی ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ یہاں کہاں ہے سمندر اور بندرگاہ۔

لاہور کی فضائوں میں آلودگی تو اب در آئی ہے مگر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس کی ہوائوں میں اپنائیت، محبت اور خلوص ہے۔ اس شہر کی جادوئی خاصیت یہ ہے کہ جو یہاں رہنے کیلئے آتا ہے لاہور شہر اس کے دل میں بس جاتا ہے اور پھر یہاں سے واپس جانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا تھا:

شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

لاہور سے متعلق فخر عباس کا شعر بہت مقبول ہے کہ

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے محبت ہے

تکلف برطرف، مجھے اس تاثر سے اتفاق نہیں۔ اگرچہ یہاں کسی دل ربا کی قربت میں گزرے حسین لمحات کی یاد بھی آتی ہے مگر مجھے تو اس شہر کی یاد ستاتی ہے۔ لاہور بذات خود محبوب ہے، طلب گار اس کے در و دیوار، گلیوں اور چوراہوں پر نثارہوتے ہیں۔

تازہ ترین