• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اطہر اسماعیل ڈی آئی جی پولیس ہیں، اولڈ راوینز یونین کے صدر ہیں۔ شعر و ادب اور موسیقی سے رغبت رکھنے والے اس پولیس افسر کو ایک دن لاہور کے ایک بڑے اسکول کی طرف سے فون کال موصول ہوئی کہ آپ کل اسکول تشریف لائیں کیونکہ آپ کے بچے نے بدتمیزی کی ہے۔ اسکول تو اگلے دن جانا تھا مگر یہ پولیس افسر سارا دن پریشان رہا کہ نا جانے میرے بچے نے کون سی بدتمیزی کر دی ہے؟ شام کو گھر پر بچے سے پوچھتا رہا مگر بچے نے کہا، میں نے تو کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ خیر! اگلے دن اطہر اسماعیل اپنی اہلیہ کے ساتھ بچے کے والدین کے طور پر پیش ہوئے،ا سکول انتظامیہ سے پوچھا کہ ہمارے بچے نے کون سی بدتمیزی کی ہے؟ اسکول انتظامیہ نے بتایا کہ بچے نے پنجابی بولی ہے، جواباً اطہر اسماعیل نے کہا، بس، اور تو کوئی بات نہیں؟ اسکول انتظامیہ نے بتایا، اور کوئی بات نہیں، بس یہی جرم ہے کہ بچے نے پنجابی بولی ہے۔ اسکول انتظامیہ کا جواب سننا تھا کہ اطہر اسماعیل کے اندر کا پنجابی جاگا پھر اس نے کہا " میں پنجابی ہوں، میرا بچہ پنجابی نہیں بولے گا تو کیا بولے گا؟ میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں پنجابی بولتا ہوں کیونکہ یہ میری اور میرے بچوں کی مادری زبان ہے، آپ کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے تو بتائیے، مجھے آپ کی عقل و دانش پہ حیرت ہے، آپ مادری زبان بولنے کو بد تمیزی کہہ رہے ہیں"۔ مصوری کرنے والا پولیس افسر اٹھا اور اٹھتے اٹھتے لفظوں سے تصویر میں رنگ بھرنے لگا، "پنجابی زبان میرے باپ دادا کی زبان ہے، میرا فخر ہے میرے بچے پنجابی بولیں گے، یہ پنجاب کی دھرتی سے رزق کھاتے ہیں، اگر پنجابی بولنا بدتمیزی ہے تو یہ بدتمیزی تو ہو گی کیونکہ ہم گھر میں پنجابی بولتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے ماں باپ بھی گھر میں پنجابی ہی بولتے ہوں گے۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ اسکولوں میں بھی انگریزی اور گھروں میں بھی انگریزی "۔یہ واقعہ صرف اطہر اسماعیل کے ساتھ پیش نہیں آیا، ایسے واقعات کئی والدین کے ساتھ پیش آ چکے ہیں۔ لاہور کے کئی اسکولوں کو انگریزی کا "بخار" چڑھا ہوا ہے۔ مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ مجلے "راوی" کے انگلش سیکشن کی ایڈیٹر رہنے والی فاطمہ ضیاء ڈار نے برسوں پہلے یہ واقعہ مجھے سنایا تھا، واقعہ سنانے سے پہلے یہ وضاحت کرتا چلوں کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ مجلے "راوی" کے دو ایڈیٹر ہوتے ہیں، ایک اردو سیکشن اور ایک انگریزی سیکشن کا۔ فاطمہ ضیاء ڈار کہنے لگیں کہ " گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد میں نے لاہور کے ایک اسکول کو بطور ایڈوائزر جوائن کیا، دنیا بھر کی اسٹیڈیز کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اسکول میں مادری زبان پنجابی لاگو کروا دی، بس یہ "جرم" کرنا تھا کہ لاہور کے بڑے بڑے رئیس اسکول پہنچ گئے، اسکول انتظامیہ سے کہنے لگے، ہم اپنے بچوں کو یہاں پنجابی سیکھنے تو نہیں بھیجتے، یہ مضمون ختم کریں، نہیں تو ہم اپنے بچوں کو کسی اور اسکول میں داخل کروا دیں گے۔ اسکول انتظامیہ بے بس ہو گئی اور والدین کے مطالبے کے سامنے جھک گئی، مطالبہ اتنا پر زور تھا کہ اسکول انتظامیہ نے مجھے جواب دے دیا"۔ انہی دنوں فاطمہ ضیاء ڈار کی والدہ پروفیسر خدیجہ ضیاء ڈار ایف سی کالج لاہور میں پڑھاتی تھیں۔ میں جب بھی ان کے گھر ماڈل ٹاؤن جاتا تو وہ ہمیشہ میرے ساتھ پنجابی بولتیں۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہنے والے ہمارے دوست ساجد گورائیہ بتاتے ہیں کہ " ایک روز مردم شماری کرنے والی ٹیم نے گھر کے افراد کا پوچھا، جونہی وہ ٹیم جانے لگی تو میں نے پوچھا، ہماری مادری زبان کیا لکھی ہے؟ ٹیم میں سے ایک لڑکی بولی، اردو۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ سب کی مادری زبان اردو ہی تو ہے، میں نے کہا نہیں، ہماری مادری زبان پنجابی لکھیں"۔

ان تمام واقعات کے باوجود مجھے حیرت بھری خوشی ہے کہ پاکستان کی اولین یونیورسٹیز میں شمار ہونے والی لمز میں پنجابی پڑھائی جاتی ہے، وہاں ہمارے پرانے دوست زاہد حسن شعبہ پنجابی کے سربراہ ہیں، کینیڈا کے کسی بھی اسکول میں کوئی بھی زبان بولنے والے اگر پانچ بچے ہوں تو ان کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے، اس لئے کینیڈا کی سیکنڈ زبان پنجابی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی نفسیات اور تعلیم سے متعلقہ ذیلی ادارے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان ہی میں ہونی چاہئے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار بھی یہی تھا۔ اگر سندھ اور خیبرپختونخوا میں مادری زبان پڑھائی جا سکتی ہے تو پنجاب میں کیوں نہیں؟ اگر آپ تعلیمی سدھار چاہتے ہیں تو تعلیم کا ذریعہ اپنی زبان بنائیں۔ جدید علوم کو اپنی زبانوں میں ڈھالیں، اردو اور انگریزی بھی پڑھائیں مگر ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہو۔ بقول عباس تابش کہ

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

تازہ ترین