سعودی عرب 1932ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک ہمیشہ امریکیوں کی آنکھوں کا تارا رہا ہے۔ اس دوستی میں نشیب و فراز ضرور آئے مگر گرمجوش تعلقات میں تعطل یا انقطاع کبھی نہ آیا ۔تمام امریکی صدور خواہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ ان کے بیرونی دوروں میں سعودی عرب بالعموم ترجیح رہا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح اپنی پہلی ٹرم میں اپنے فارن ٹرپ کا آغاز سعودی عرب سے کیا تھا اسی طرح اپنی موجودہ ٹرم میں بھی بیرونی دوروں کا آغاز سعودی کنگڈم سے کیا ہے۔ یہ دورے محض رسمی نہیں ہوتے بلکہ ان میں اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے حالیہ دورے میں بھی محض اقتصادی و دفاعی معاہدے نہیں ہوئے بلکہ نئی شامی انقلابی حکومت کی لجٹمیسی کا مخمصہ حل کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی گئی ہے جو سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ شام میں شیعہ سنی محاذ آرائی و جنگ و جدل کی ایک طویل تاریخ ہے جو شاید امام کوفہ اور امیر شام سے بھی پہلے ہاشمیوں اور امویوں کی کشمکش کے ابتدائی ادوار سے چلی آ رہی ہے، یہی خلفشارآج ایرانیوں اور سعودیوں کی پراکسیوں کے ذریعے جاری ہےجس سے ہم سب آگاہ ہیں ۔شام میںجس طرح سنی انقلابیوں نے اپنے لیڈر ابو محمد الجولانی کی قیادت میں صدر بشارالاسد کی علوی حکومت کا تختہ الٹ دیا اس کا پس منظر سب کے سامنے ہے،ان انقلابیوں کی پشت پناہی شاید ترک صدر اردوان سے بھی بڑھ کر سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کرتے آرہے تھے۔ سعودی کراؤن پرنس کی تمنا تھی کہ جس طرح امریکا نے الجولانی کی انقلابی حکومت کو تسلیم کیا ہے اسی طرح وہ شام پر عائد تمام سابقہ پابندیاں ختم کرتے ہوئے اس انقلابی حکومت کو وہی اسٹیٹس دے جو بشمول سعودیہ دیگر عرب ریاستوں کو دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں سعودی کراؤن پرنس ایم بی ایس نے امریکی صدر سے یہ اعلان کروایا کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ شام سے تمام پابندیاں ہٹوادی ہیں بلکہ نئے تعلقات کا آغاز کرتے ہوئے اگلے روز محمد الشرع (الجولانی کا اصل نام )سے صدر ٹرمپ کی ملاقات بھی کروائی۔ایم بی ایس کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے جہاں اپنے شاندار تاریخی استقبال پران کا شکریہ ادا کیا وہیں اپنی ایک دلی خواہش و تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھا خود صدر ٹرمپ کےاپنے الفاظ میں ’’سعودی عرب کا میں بہت زیادہ احترام کرتا ہوں اور میرا یہ خواب ہے کہ آپ جلد یا بدیر ابراہیمی معاہدے میں شریک ہوکر اسرائیل کو تسلیم کرلیں یہ میری حقیقی عزت افزائی ہوگی ‘‘۔ ریاض میں خلیج تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی ٹرمپ نےاس حوالے سے اصرار کیا،انہوں نے متحدہ عرب امارات کی مثال دی جو ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوکر خطے میں بہتر کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے یمن اور لبنان میں ایرانی پراکسیوں کے رول پر سخت تنقید کی اور کہا کہ’ حوثی باغیوں نے اگر دوبارہ حملے کیے تو انہیں مزید سزا ملے گی۔ ایرانیوں کو امیر قطر کا شکرگزار ہونا چاہیے جن کی مہربانی سے ایران پر متوقع حملہ نہیں کیا گیا۔ اب اگر ایرانی قیادت نے زیتوں کی شاخ اٹھانے کی بجائے جوہری بندش کی ڈیل سے انکار کیا تو نہ صرف یہ کہ مزید پابندیاں لگیں گی بلکہ تہران کی آئل برآمدات زیرو کردیں گے اور یہ ایشو جنگ تک جاسکتا ہے حالانکہ میں جنگوں کو روکنا چاہتا ہوں ،جس طرح انڈیا اور پاکستان جیسی دو ایٹمی قوتوں کے درمیان متوقع جنگ کو روکا ہے یا رشیا اور یوکرائن کی جنگ روکنے کیلئے کوشاں ہوں۔ ہم غزہ جنگ کو بھی روکنا چاہتے ہیں غزہ کے لوگ بھی زیادہ بہتر مستقبل کے حقدار ہیں مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک وہاں کے رہنما معصوم لوگوں کو اغوا اور تشدد کا ہدف بناتے رہیں گے ٹیررازم ہمیں کسی صورت قبول نہیں ‘ ۔ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر سعودیہ اور امریکا میں 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے،یہ دفاعی معاہدے 600ارب ڈالر کی اس سعودی سرمایہ کاری کا حصہ ہیں جسکا اعلان سعودیوں نے کررکھا ہے اور ایم بی ایس کے مطابق ہم اسے ایک ہزار ارب تک لے جائیں گے جیسے کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ان معاہدوں میں جی ای گیس ٹربائنز کی برآمدات توانائی کے شعبے میں اربوں ڈالرز، بوئنگ طیارے، ایف 35، دفاع، معدنیات کی کان کنی، سعودیوں کو ٹیکنالوجی اور آلات کی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے کچھ لوگ اتنی بھاری سعودی سرمایہ کاری پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ امریکا ہی ہے جسکی بدولت سعودیوں کو سیال سونے کے بہتے کنویں نصیب ہوئے اور امریکی ہمیشہ سعودیوں پر حفاظتی چھتری تانے کھڑے رہے۔ صدر ٹرمپ نے قطر اور متحدہ عرب امارات کے بھی کامیاب دورے کیے ہیں اور امریکا کیلئےبھاری سرمایہ کاری لپیٹ کرواپس لوٹے ۔کسی مصری من چلے نے کیا خوب کہا ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے مسیحیوں سے جزیہ کے نام پر جتنی رقوم لی تھیں امریکی صدر ٹرمپ وہ سب اکٹھی وصولتے ہوئے چلتے بنے۔ دوحہ میں امریکی ایئربیس کیلئے سرمایہ کاری کرواتے ہوئے انھوں نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ ہم افغانستان کے بگرام ایئربیس کا کنٹرول نہیں چھوڑیں گے،اپنےپاس رکھیں گے۔ ہمارے کچھ روایتی طبقات نے عرب کلچر میں ابھرتی جدت پسندی پر اعتراضات اٹھائے ہیں جیسے کہ سعودی عرب میں معزز خواتین نے کھلے مسکراتے چہروں کے ساتھ امریکی صدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور متحدہ عرب امارات میں کھلے بالوں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے نوجوان خواتین نےاپنے معزز مہمان کو خوش آمدید کہا۔ درویش کی نظر میں ہمیں عرب جدت اور لبرل اپروچ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے وقت کا تیزی سے آگے بڑھتا پہیہ اب پیچھے کو نہیں گھمایا جاسکتا۔