یہ ایک سفید پوش گھرانہ تھا۔ ایک بیٹا شجاعت خان، دو بیٹیاں صداقت بیگم اور عدالت بیگم۔ ان کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی ، ان کی خواہش تھی کہ بیٹا فوج میں جائے اور پاکستان کے دفاع میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایک بیٹی کو وہ میڈیا میں بھیجنا چاہتے تھے تاکہ وہ پوری دلیری کے ساتھ پاکستانی قوم کو حقائق سے آگاہ کرے اور ایک بیٹی کو وہ جج بنانے کے خواہشمند تھے تاکہ وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر مظلوموں کو ان کا حق دلاسکے۔ چنانچہ ان بچوں کی پیدائش پر ہی ان کے نام ایسے رکھے جو ان کی خواہشات کی عکاسی کرتے تھے۔ شجاعت خان کو فوج میں کمیشن مل گیا اور اس نے مختلف جنگی محاذوں پر کار ہائے نمایاں انجام دئیے اور ایک ایسے ہی معرکے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوا ہزاروں لو گ اس کی قبرپر حاضری دیتے ہیں اور اس کے درجات کی بلندی کی دعائیں کرتے ہیں۔ صداقت بیگم نے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کی ڈگری لینے کے بعد ایک ٹی وی چینل جوائن کرلیا مگر کچھ ہی عرصے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ اس چینل میں اپنے نام کی لاج نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ اس نے استعفیٰ دے دیا اور پھر مختلف چینلز میں ملازمت کی درخواستیں دیں مگر وہاں گنجائش نہیں تھی چنانچہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے وہ واپس اپنے پرانے چینل میں چلی گئی۔ عدالت بیگم نے لاء کالج سے قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ ایک طویل عرصے تک وکالت کے بعد وہ بالآخر منصف کی کرسی پر فائز ہوگئی۔ شجاعت خان شہید اور صداقت بیگم کے بارے میں تفصیلات کسی دوسرے کالم میں پیش کروں گا ۔ آج صرف عدالت بیگم کے بارے میں چند باتیں بتائوں گا جو میرے علم میں ہیں۔جب میں نے پہلی دفعہ عدالت بیگم کو دیکھا اس وقت وہ جج کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ایک گھریلو خاتون تھیں۔ عدالتی اوقات کے بعد باقی وقت گھر پر گزارتی تھیں بلا ضرورت کسی سے نہیں ملتی تھیں اسلامی علوم خصوصاً فقہ میں انہیں مہارت حاصل تھی چنانچہ لوگ ان سے مختلف مسائل کے بارے میں رائے لیتے بلکہ عائلی تنازعات کے فیصلے بھی انہی سے کرواتے۔ عدالت بیگم کی زندگی بہت سادہ تھی چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں کہیں آنے جانے کیلئے بس میں سفر کرتیں ان کے عقیدت مند انہیں زندگی کی ہر آسائش کی پیشکش کرتے رہتے تھے لیکن انہوں نے دنیاوی آسائشوں کیلئے دل میں کبھی رغبت محسوس نہیں کی۔ ان کے علم و فضل اور بے لاگ فیصلوں کے علاوہ ان کی زندگی کے اس درویشانہ انداز کی وجہ سے بھی پورے علاقے میں ان کیلئے بے پناہ عزت اور احترام پایا جاتا تھا۔
مگر ایک دن اچانک ان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے انکی کایا پلٹ کے رکھ دی۔ شہر میں ایک حاکم چور دروازے سے حکومت میں آیا یہ حاکم ویسے تو علم دوست تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی بہت عام تھیں اس نے ایک دن عدالت بیگم کو پیغام بھیجا کہ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔ عدالت بیگم اگرچہ بلا ضرورت کسی سے نہیں ملتی تھیں مگر انہیں اس حاکم کا انداز اچھا لگا کہ اپنے تمام اختیارات کے باوجود اس نے عدالت بیگم کو اپنے ہاں بلانے کی بجائےان کے پاس آنے کی درخواست کی تھی۔اجازت ملنے پر حاکم ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو کسی نے سچ کہا ہے کہ’’دل پر کسی کو اختیار نہیں‘‘ چنانچہ عدالت بیگم ایسی پارسا اور متقی خاتون پہلی نظر ہی میں اسے دل دے بیٹھیں۔ حاکم نے بھی انہیں پہلے اپنے دل میں اور پھر اپنے محل میں جگہ دی۔ میں نے دیکھا تو نہیں لیکن سنا ہے کہ اسکے بعد عدالت بیگم کے طور اطوار دیکھنے والے تھے۔ ہر وقت زرق برق لباس اور زیورات میں لدی پھندی رہتی تھیں۔ ان کی چوکھٹ پر بڑے بڑے امراء ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ ان کے پاس سواری کیلئے عالیشان گاڑیاں تھیں اور ہر محکمے پر انہیں اختیار تھا جسے چاہتیں اس کے سمن جاری کردیتیں مگر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ حاکم انتقال کرگیا اور یوں عدالت بیگم نے خود کو بھری دنیا میں تنہا محسوس کرنا شروع کردیا۔امراء نے اس سے آنکھیں پھیرلیں اور جو خدام ہر لمحہ اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے وہ اس کے سائے سے بھی کترانے لگے۔ اس عرصے میں عدالت بیگم کی حالت دیدنی تھی انہیں آسائشوں اور کروفر کی عادت پڑچکی تھی چنانچہ وہ بے چینی سے نئے حاکم کی آمد کی منتظر تھیں تاکہ اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ نیا حاکم عدالت بیگم سے زیادہ عدالت بیگم کا چاہنے والا نکلا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسکے بعد آنے والوں نے بھی عدالت بیگم کو اور عدالت بیگم نے انہیں مایوس نہیں کیا۔
آخری دنوں میں زہد و تقویٰ کے علاوہ عدالت بیگم کے چہرے کی چمک بھی ماند پڑگئی تھی۔ ان کا علم بھی گہنا گیا تھا ، صاحبان اقتدار کی محبت نے ان کی روح کو بھی گہنا کر رکھ دیا تھا۔ انہیں اس زیاں کا احساس تھا انہیں وہ دن یاد آتے تھے جب وہ آسائشوں اور کروفرکے بغیر سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ جب خلق خدا انکے فیصلوں پر آنکھیں بند کرکے ایمان لاتی تھی اور ان کے راستے میں آنکھیں بچھاتی تھی۔ یہ سب کچھ یاد آنے پر ان کی اور ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں لیکن خواہشات کے جس بھنور میں وہ گھر گئی تھیں ان سے نکلنا اب ان کیلئے آسان نہیں تھا۔ ایک دن اسی طرح کسی حکم کی تعمیل کرتے اور اپنے اس رویے پر گریہ کرتے ہوئے ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
اللّٰہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت کرے کہ عمر کے آخری حصے میں ہی سہی وہ اپنے رویے پر نادم نظر آئیں جبکہ ہم لوگ نادم ہونا بھی بھول چکے ہیں۔