پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان مالی سال 2025-26ء کی بجٹ تجاویز کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور باخبر ذرائع کے حوالے سے کئی امور پر اتفاق رائے سامنے آیا ہے جبکہ دیگر نکات پر بریفنگ اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے بیان سمیت کئی حوالوں سے تنخواہ دار طبقے اور غربت کی چکی میں پسنے والوں کے لئے امید افزا پیغامات سامنے آئے ہیں۔ مگر معاشی اشاریوں کے مثبت پہلوئوں کے باوجود کئی چیلنج بھی نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں ترسیلات زر کی صورت حال کی بہتری، ایک برس میں جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے صفر اعشاریہ پانچ سے سرپلس کی سطح پر آنے سمیت کئی کامیابیاں اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی کے فیصلے کی صورت میں سامنے آئیں۔ مگر بیرونی مالیاتی خلا تین برسوں تک 88کھرب روپے رہنے اور 2030ء تک نجکاری سے کوئی آمدنی نہ ہونے کی آئی ایم ایف کی پیش گوئی بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی جس سے ایک اور آئی ایم ایف قرض کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ ٹیرف کی عالمی جنگ کے تناظر میں اسلام آباد نے بعض فیصلے کئے ہیں جبکہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں اخراجات کم کرنے سمیت مالیاتی ڈسپلن سخت کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس کیفیت میں معاشی نمو 3.6فیصد، جاری سال مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 5.6فیصد، اگلے برس 5.1فیصد اوسط افراط زر کی شرح 7.7فیصد رکھنے سمیت آئی ایم ایف اہداف پیش نظر رہیں گے۔ ان اہداف کے ضمنی پہلوئوں پر بھی بات ہورہی ہے۔ پرانی گاڑیوں کی درآمد کی بحالی پر اتفاق ہو چکا ہے۔ کچھ دوسرے معاملات و مطالبات کے عملی نفاذ کے پہلو غور طلب ہیں۔ بات چیت جاری ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ 2جون کو پیش کئے جانے والے نئے مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی کی مشکلات میں کمی کے پہلو نمایاں ہوں گے۔