• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: طاہر سردَھنوی

صفحات: 376، قیمت: 1500 روپے

ناشر: اطراف مطبوعات، اے 362، بلاک 3، گلشنِ اقبال، کراچی۔

فون نمبر: 8210636 - 0300

زیرِ نظر مجموعۂ کلام طاہر سردَھنوی کے دو عقیدت مندوں، نجم الحسن خان اور ابرار حسین اکبر نے ترتیب دیا ہے، جو خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ بکھرے اوراق کو یک جا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ طاہر سردَھنوی کا بنیادی تعلق، سردھنہ، ضلع میرٹھ سے تھا۔

وہ 1947ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور جھنگ میں سکونت اختیار کی۔ ممتاز شاعر، ادیب، صحافی اور دانش وَر، محمود شام نے نہایت خوش دلی سے اعتراف کیا ہے کہ طاہر سردَھنوی شاعری میں اُن کے استاد تھے اور شام صاحب نے زیرِ نظر کتاب شایع کرکے حقِ شاگردی ادا کردیا ہے۔ 

شام جی کو کتاب کا مسوّدہ طاہر سردَھنوی کی وفات کے 53برس بعد ملا۔ اگر بروقت مل جاتا، تو یہ کتاب بہت پہلے شایع ہوگئی ہوتی۔ فلیپ پر شاعرِ مزدور، احسان دانش کی تحریر سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طاہر سردَھنوی کس مقام و مرتبے کے شاعر تھے۔ اِس کتاب میں محمود شام نے’’عرضِ شاگرد‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے، وہ پڑھنے کے بعد طاہر سردَھنوی کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آئے۔

نیز، اُنہوں نے جن اشعار کا انتخاب کیا ہے، وہ بھی تہہ داری لیے ہوئے ہیں۔ ہماری نگاہ میں تو یہ پوری کتاب ہی ایک انتخاب ہے۔ کتاب میں خواجہ محمّد زکریا، پروفیسر عبدالباری، ڈاکٹر نجم الحسن خان اور ابرار حسن اکبر کے مضامین بھی نہایت معلوماتی ہیں، جن میں اُن کی شخصیت اور فن کو اجاگر کیا گیا ہے۔

واضح رہے، زیرِ نظر مجموعے میں ایک نعت اور210 غزلیں شامل ہیں۔طاہر سردھنوی چوں کہ ادب کی کلاسیکی روایت سے جُڑے ہوئے تھے، اِسی لیے اُن کی غزلوں میں بے ساختگی اور سرشاری کی کیفیت نمایاں ہے، جب کہ کلام میں جدیدیت اِن معنوں میں ہے کہ اُنہوں نے پرانے مضامین کو نیا اسلوب دیا۔

گرچہ طاہر سردھنوی نے بہت کٹھن زندگی گزاری، لیکن اُن کی شاعری میں نوحہ گری کے آثار تک نہیں ملتے۔ اُن کی شاعری تاریخی تسلسل کا حصّہ ہے اور اگر ایسی شاعری نظرانداز کردی جاتی، تو گویا ہماری روایت کی ایک اہم کڑی گم ہوجاتی۔ 

طاہر سردَھنوی کا یہ بھی کمال ہے کہ جو شاعری انسانوں کے وجود میں تھی، اُسے اُنہوں نے لفظ و بیان کے نت نئے سانچوں میں ڈھال کے ایک ایسا خارجی پیکر عطا کردیا، جو اُن کی شاعرانہ انفرادیت کی بھرپور گواہی دیتا ہے۔ جن لوگوں کو شعر و شاعری سے شغف ہے، وہ یقیناً طاہر سردَھنوی کا کلام پڑھ کر مایوس نہیں ہوں گے کہ اُن کی کتاب میں ہر ذوق کے قاری کو اپنی اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز ضرور مل جائے گی۔