شاعر: نقوش نقوی
صفحات: 320، قیمت: 500روپے
ناشر: رائٹرز فاؤنڈیشن، ’’سخنور‘‘، کراچی۔
فون نمبر: 2683813-0301
زیرِ نظر کتاب کے شاعر، نقوش نقوی کا شمار کراچی کی ہمہ جہت شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا بنیادی تعلق گہوارۂ علم و ادب’’امروہہ‘‘ سے ہے، جس نے غلام مصحفی ہمدانی، رئیس امروہوی، نسیم امروہوی، کمال امروہوی، جون ایلیا، سیّد محمّد تقی، نظر امروہوی، ڈاکٹر محمّد علی صدیقی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور محمّد حسین صدیقی جیسی یگانۂ روزگار شخصیات جنم دیں۔مزید کس کس کا نام لیا جائے کہ ایک طویل فہرست ہے۔
نقوش نقوی بلاشبہ’’امروہہ‘‘ کی چلتی پِھرتی تاریخ ہیں اور جس کام کا بیڑہ اُٹھا لیتے ہیں، اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر دَم نہیں لیتے۔’’تذکرہ شعرائے امروہہ‘‘ جیسی ضخیم کتاب ترتیب دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اُنہوں نے کئی برس تک ’’سخنور‘‘ کے نام سے ایک ماہ نامہ ادبی جریدہ بھی شائع کیا اور ایک سینئر شاعر کی حیثیت سے بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
ان کا تازہ مجموعۂ کلام ہمارے پیشِ نظر ہے، جس میں حمد و نعت اور رثائی شاعری کے علاوہ 140 غزلیں اور 14 شخصی نظمیں شامل ہیں۔ دیباچہ ڈاکٹر ہلال نقوی نے تحریر کیا ہے، جسے پڑھ کر نقوش نقوی کی زندگی کا ہر پہلو سامنے آجاتا ہے۔ ڈاکٹر ناشر امروہوی، خمار فاروقی اور آشفتہ چنگیزی کے مضامین بھی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ نقوش نقوی عرصۂ دراز سے شاعری کر رہے ہیں، لیکن کبھی’’بڑائی‘‘ کا دعویٰ نہیں کیا۔ وضع داری اور منکسرالمزاجی اُن کی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔
لاتعداد مشاعروں کا بھی اہتمام کیا، لیکن ہم نے اُنہیں مشاعروں میں شعر سُناتے کم ہی دیکھا ہے، یہ انکساری نہیں تو پھر کیا ہے۔ نیز، ’’دبستانِ امروہہ‘‘ کی بازگشت اُن کے اکثر اشعار میں سُنائی دیتی ہے۔ وہ اِن معنوں میں روایتی آدمی ہیں کہ اپنے اسلاف کی اقدار و روایات اپنے اندر جذب کر رکھی ہیں۔بہرکیف، اِس مجموعے کی شاعری بھی انتہائی متاثر کُن ہے کہ ان کی غزلوں میں کلاسیکی شاعری کے تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں اور جدید دَور میں خُود کو کسی روایت سے جوڑے رکھنا، کوئی معمولی بات نہیں۔