• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُعا، اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور اپنی مشکلات و مصائب خالقِ کائنات کے سامنے بیان کرنے کا نام ہے۔ نیز، دُعا تقدیر بھی بدل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور اے پیغمبرﷺ! جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں، تو کہہ دو کہ مَیں تو تمہارے پاس ہوں۔ جب کوئی پُکارنے والا مُجھے پکارتا ہے، تو مَیں اُس کی دُعا قبول کرتا ہوں تو اُن کو چاہیے کہ میرے احکام مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔‘‘

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اپنے ربّ سے نہ صرف ہر نماز کے بعد بلکہ جب بھی موقع ملے، اپنے، اپنے خاندان، وطن اور پوری اُمّتِ مسلمہ کے لیے دُعا ضرور مانگیں۔ یاد رہے، ہوائیں  موسم کا اور دُعائیں مصیبتوں کا رُخ بدل دیتی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالی سے دُعا مانگتے رہنا چاہیے۔ 

یاد رہے، دُعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی یا تو دُعا فوراً قبول کرلیتا ہے یا اگر فوری قبول نہ ہو، تو اُس میں بھی اللہ کی طرف سے بندے کے لیے کوئی خیر و بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خبیر وعلیم ہے، لہٰذا مانگی گئی جو چیز ہمارے لیے بہتر نہیں ہوتی، وہ اُسے روک لیتا ہے اور جلد یا بدیر اُس سے بہتر شے عطا کرتا ہے۔ 

نیز، ہماری جودُعائیں قبول نہیں ہوتیں، وہ آخرت کے اجر کی صُورت محفوظ کر لی جاتی ہیں اور جب بندے کو بروزِ قیامت اپنی اُن مانگی ہوئی دعاؤں کے بدلے، جو اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں قبول نہیں کیں، اجر دیا جائے گا، تو وہ حیران رہ جائے گا اور کہے گا کہ’’ کاش! دُنیا میں میری کوئی بھی دُعا قبول نہ ہوتی اور آج مُجھے اُن کے بدلے اور بھی زیادہ اجر ملتا۔‘‘

دُعا محض الفاظ نہیں، بلکہ اللہ تعالی سے براہِ راست گفتگو کا ایک مؤثر، طاقت وَر ذریعہ ہے، مگرصد افسوس کہ ہم نے اپنے ربّ سے خشوع و خضوع سے دُعائیں مانگنی ہی چھوڑ دی ہیں۔ ہم نماز کی ادائی کو معاذ اللہ مشقّت خیال کرتے ہیں اور عُجلت میں پڑھنےکے بعد رسماً دُعا مانگ کر فوراً دُنیاوی کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح دورانِ نماز بھی ہمارا ذہن دُنیا کے بکھیڑوں ہی میں اُلجھا رہتا ہے، حالاں کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں اور وہی ہمارا حاجت روا ہے۔

نماز پڑھتے، دُعا مانگتے وقت جلدی بازی کا مظاہرہ کرنا اور خشوع و خضوع کا نہ ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم دُنیا کی چمک دمک سے متاثر ہوکر آخرت کو بُھول بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مغفرت فرمائے اور ہمیں حضوریٔ قلب کے ساتھ نماز ادا کرنے، دُعا مانگنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔ ایک وقت تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے، تو سلام کرنے کےبعد ایک دوسرے کو دُعائیں بھی دیتے۔ 

اسی طرح بزرگ بچّوں سے ملتے، تو نہ صرف شفقت سے اُن کے سَر پر ہاتھ پھیرتے، بلکہ اُنہیں ڈھیروں دُعائیں بھی دیتے اور بچّے بھی سَر جُھکا کر اپنے بزرگوں سے دُعائیں وصول کرتے۔ وہ کیا خُوب منظر ہوتا تھا کہ آج بھی ذہن سے محو نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے آج بھی بعض خاندانوں میں یہ خُوب صُورت سُنّت قائم ہے۔

نفسا نفسی کے موجودہ دَور میں جہاں ہر دوسرا فرد حسد،جلن جیسے روحانی امراض میں مبتلا ہے، وہیں دوسروں کی ہمارے حق میں کی گئی دُعائیں بھی نایاب ہوتی جارہی ہیں اور اگر ہم کسی کو دُعا دیتے بھی ہیں، تو اُس میں بھی اپنی دُنیاوی منفعت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ آج ہم اخلاقی طور پراس قدر زوال پذیر ہوچُکے ہیں کہ ایک دوسرے کو دُعا دینا تو دُور کی بات، ہم میں صبروتحمل، برداشت جیسی صفات ہی مفقود ہوگئی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر دورانِ سفر غلطی سے ہماری گاڑی سے کوئی دوسری گاڑی ذرا سی بھی ٹکرا جائے، تو ہم فوراً مَرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ 

اسی طرح اگر کوئی شخص ہماری گاڑی کے سامنے سے گزر کر سڑک پار کرنے کی کوشش کرلےاورہمیں بریک لگانی پڑجائے، تو ہم فوراً گالیوں، بددُعاؤں پر اتر آتے ہیں۔ بسز میں سفر کے دوران اکثر مسافروں، کنڈکٹر کے درمیان کرائے پر تلخ کلامی دیکھی گئی ہے، جو بد تہذیبی، گالم گلوچ سے ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر اکثر محافل، تقاریب میں ساسیں بہوؤں کی، تو بہوئیں ساسوں کی بُرائیاں کرتی، اُنہیں کو سنے، بددُعائیں دیتی نظر آتی ہیں۔ الغرض، ہم اپنے دِلوں میں عزیز واقارب، محلّے داروں اور رفیقانِ کار سے بھی کدورت اور بُغض رکھتے ہیں۔

یاد رکھیے، کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ لہٰذا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا سیکھیں کہ زبان قابو میں رہے، تو زندگی آسان ہوجاتی ہے اور ویسے بھی کچھ پتا نہیں کہ کون سی گھڑی قبولیت کی ہو۔ سو، اپنے لیے بھی ہمیشہ اچھا سوچیں اور اپنے مسلمان بھائی سے بھی حُسنِ ظن رکھیں، کیوں کہ ہم کسی کے باطن میں نہیں جھانک سکتے۔ مزید برآں، ہم اپنے مُلک کو درپیش مسائل بھی سمجھنےکی کوشش نہیں کرتے۔

ذرا سی پریشانی آجائے، تو وطنِ عزیز ہی کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں، جو کسی طور مناسب نہیں۔ ہمارا اِس بات پرمضبوط ایمان ہونا چاہیے کہ تمام فیصلے اوپر ہوتے ہیں۔ اگر اوپر والے کو منا لیا جائے اور صرف اُسی سےمانگا جائے، تو بظاہر ناممکن نظر آنے والا کام بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ جب آپ اپنے خالق ومالک سے اپنی جائزحاجات کی تکمیل دُعائیں مانگیں، تو ایک محبِّ وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے چند لمحے نکال کر اپنے پیارے وطن کے لیے بھی دُعا ضرور مانگا کریں۔ 

آج پاکستان کھربوں روپے کا مقروض ہے۔ وطنِ عزیز کو بے تحاشا معاشی و سماجی مسائل کا سامنا ہے، تو ایسے میں جب لاکھوں، کروڑوں ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھیں گے اور تسلسل کے ساتھ دُعائیں مانگی جائیں گی، تو نہ جانے، کس لمحے، کس کی دُعا قبول ہو جائے، ہم پراللہ تعالی کو رحم آجائے اور ہمارے مُلک کی تقدیر سنور جائے۔ نیز، دوسروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں، تاکہ دوسرے بھی آپ کی غلطیاں، کوتاہیاں معاف کرسکیں۔ سب کے لیے دُعا کریں اور دُعالیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ کوئی چارہ نہیں دُعا کے سوا، کوئی سُنتا نہیں خدا کے سوا۔