تحریر: نرجس ملک
ماڈل: عالیہ راجپوت
ملبوسات: SAB TEXTILE BY FARRUKH ALI
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: محمّد کامران
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
دل کا موسم بھلا ہو، تو کوّے کی کائیں کائیں بھی کوئل کی کُوک سی مدھر معلوم ہوتی ہے، اور اگر کہیں مَن بگیا میں پَت جھڑ، خزاں سی چھائی ہو، تو چِڑیوں کی چہکاریں، چہچہاٹیں، طوطا، مینا کی میٹھی میٹھی بولیاں، کُونج، قُمری، بلبل، فاختہ کی سُریلی صدائیں، دُور دیس سے اُڑ آنے والے رنگارنگ طیور کے زمزمے، نغمے، ڈار کی صُورت گھروں کو لوٹتے خُوش ادا، خُوش نوا، خُوش الحان پنچھیوں کی تانیں، الاپ بھی کانوں کو بھلے معلوم نہیں ہوتے۔
یہ دل کے موسم بھی عجب موسم ہیں، اِن کی گرمی، سردی، خزاں، بہار کا، باہر کے موسموں سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ باہر آگ برس رہی ہو، اندر برف جمی جاتی ہے۔
باہر چہار سُو پھول بُوٹے جوبن پہ آئے ہوں، اندر خزاں کنڈلی مارے، دھونی رَمائے بیٹھی ہوتی ہے۔ پیروں تلے سوکھے پتّے کُرلاتے، بین کیے جاتے ہیں۔ اور…عموماً اندر و باہر کے موسموں، رُتوں میں اس قدر تفاوت خواتین میں دیکھی جاتی ہے۔
وہ کیا ہے کہ ؎ ’’تم اتنا جو مُسکرا رہے ہو… کیا غم ہے، جس کو چُھپا رہے ہو…آنکھوں میں نمی، ہنسی لبوں پر…کیا حال ہے، کیا دِکھا رہے ہو…بن جائیں گے زہر پیتے پیتے…یہ اشک جو پیتے جارہے ہو…جن زخموں کو وقت بَھر چلا ہے.…تم کیوں اُنہیں چھیڑے جا رہے ہو… ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر…ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو۔‘‘ تو اس فن، ہنر میں جیسی طاق خواتین ہوتی ہیں، کوئی اور کم ہی دیکھا گیا ہے۔
بظاہر چہرے پہ بلا کا اطمینان وسُکون اور اندر کبھی بھانبھڑ بل رہے ہوں گے، تو کبھی جل تھل ایک ہوا ہوگا۔ رہی سہی کسر رنگا رنگ پہناووں سے آراستہ و پیراستہ ہو کے، سُرخی، پاؤڈر، غازہ تھوپ، لیپا پوتی، میک اَپ کر کے پوری کرلی جاتی ہے۔
کسی کو رتّی بَھر شک، شائبہ بھی نہ ہو کہ دل پہ قیامت سی گزر رہی ہے۔ آنکھوں کے لال ڈورے رَت جَگے، درد کی شدّت کی دین ہیں، نہ کہ سُرخ آئی لائنر کا کمال۔ ہونٹوں پہ جو لالی بَھری اُجلی سی مسکان ہے، وہ درحقیقت خونِ دل سے کھنچی لکیر ہے۔
خصوصاً ’’مشرقی عورت‘‘ کا تو یہ عام چلن ہے۔ اندر کچھ، باہر کچھ، اِن عورتوں کو خُود پر جیسے جبر کرنا، پہرے بٹھانا آتا ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اور اِس میں ان کا زیادہ کمال اس لیے نہیں کہ یہ طرزِ عمل ان کی فطرت، سرشت میں گندھا، گُھٹّی میں پڑا ہے۔ بچپن سے نانیوں، دادیوں، ماؤں کو خُود پر قدغنیں لگاتے، ہتھیار ڈالتے، سمجھوتے کرتے دیکھتی ہیں، تو رفتہ رفتہ خُود بھی کندن، پارس ہو جاتی ہیں۔
اِن دنوں کراچی سے ہُنزہ تک سخت گرمی کے تھپیڑے جسم وجاں گُھلائے، پگھلائے دے رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے، بس کوئی کہیں سے برف کی چادر لاکے اوڑھا دے۔ ٹھنڈے ٹھار مشروبات پیے جائیں، یخ بستہ اے سی والا کمرا ہو اور قلفی، آئس کریم، فالودہ، ٹھنڈے میٹھے موسمی پھل، چٹنی، سلاد، رائتہ، ہلکے پُھلکے کھانے اور ہلکے ہلکے ہی رنگوں کے نرم، اُجلے، کاٹن، لان کے پہناوے۔
کچن میں جانے، چولھے کے آگے کھڑے ہونے کا تو کوئی نام بھی نہ لے، مگر…ایسی ’’فینٹسی لینڈ‘‘ کا90,80 فی صد خواتین کے لیے تو تصوّر بھی محال ہے۔ اندر کا موسم تو چھوڑیں، باہر کا موسم بھی کتنا ہی ناموافق کیوں نہ ہو، فرائض، ذمّے داریوں سے فرار، تغافل کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ روزمرّہ امور کے ساتھ، دعوتیں، پارٹیاں، تقریبات بھی چل رہی ہیں اور وہ سب کچھ کیا جارہا ہے یا کرنا پڑرہا ہے، جواس موسم میں کرنےکو بالکل دل نہیں چاہتا۔
عیدالاضحیٰ کی بھی آمد آمد ہے اور ہمارے یہاں تو بقرعید کا مطلب بھی بس ’’کھانا پینا، دعوتیں‘‘ ہی ٹھہرا۔ تب ہی خواتین کو ہول اُٹھ رہے ہیں۔ اب مہمان داریاں ہوں گی اور اُنھیں اس تپتے بلتے موسم میں خُود کو چولھوں کے آگے ہی نہیں جھونکنا، خُوب بن سنور کے، چہروں پہ بناوٹی مُسکراہٹیں سجائے اپنے آپ کو بہت کُول، Chill بھی ثابت کرنا ہے۔ ہماری مانیں، تو خدارا! اس بار گوشت پر کچھ ہاتھ ہولا رکھ لیں۔ شدید گرمی ہے، جس قدر ممکن ہو، قربانی کا گوشت غریبوں، ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔ اپنی، خواتینِ خانہ کی زندگیاں سُکھی، آسان کریں اور آخرت بھی سنواریں۔
ویسے تو خواتین کو جذبات واحساسات چُھپانے میں کمال، ملکہ حاصل ہے۔ لیکن گہرے، اُجلے رنگوں کے پہناوے اور اُن سے ہم آہنگ آرائش بھی اس رازداری کو خُوب دوام بخشتی ہے۔ سیاہ، زرد، جامنی، سبز ایسے ہی رنگ ہیں کہ زیبِ تن کر رکھے ہوں اور ساتھ گہری سُرخ لپ اسٹک کے لشکارے، کجرارے نینوں کے روشن ستارے بھی ہوں، تو کون کم بخت جان سکتا ہے کہ ’’اندر خانے‘‘ کیا چل رہا ہے۔
سو، ہماری آج کی بزم بطورِ خاص آپ کے رازِ دل کی امین ٹھہری۔ ذرا دیکھیے تو، سبز رنگ ٹُو پیس کوآرڈز کے ساتھ ہلکے زرد رنگ کے ایمبرائڈرڈ پہناوے کا جلوہ بھی کمال ہے، تو گہرے جامنی رنگ لباس کے ساتھ کاسنی دوپٹے کی آمیزش اور ڈارک یلو کوارڈز سیٹ کی ندرت و جاذبیت کے بھی کیا ہی کہنے اور سیاہ رنگ ہلکے کرنکل جارجٹ کے مشینی ایمبرائڈری سے لیس پہناوے کے ساتھ، ایمبراڈرڈ دوپٹے کی ہم آمیزی کا تو سمجھیں، کوئی مول ہی نہیں۔
اِن رنگ و آہنگ سے خُود کو خُوب سجائیں، سنواریں۔ مَن ہی مَن چاہے بقول عندلیب شادانی یہی گنگناتی رہیں ؎ شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی، پھول… اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، دامن ہاتھ میں آئے تو…چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک…کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو…کیوں یہ مہر انگیز تبسّم مدِ نظر جب کچھ بھی نہیں…ہائے کوئی اَن جان اگر اِس دھوکے میں آجائے تو…سُنی سُنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے…پھول نکلتے ہیں شعلوں سے، چاہت آگ لگائے تو…جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے…اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو…نادانی اور مجبوری میں یارو، کچھ تو فرق کرو…اِک بے بس انسان کرے کیا، ٹوٹ کے دل آ جائے تو۔