ملک کےبرآمدی شعبے پر گزشتہ کئی برس سے طاری جمود اور اسی قدر درآمدات میں اضافے نے ادائیگیوں کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔نتیجہ یہ کہ زرمبادلہ کے ذخائر غیر ملکی قرضے لے کر پورے کرنے پڑرہے ہیںاور ان کا معیشت پر بوجھ بڑھتے بڑھتے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 89ہزار834ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔اس تشویشناک صورتحال میں آئی ایم ایف کےترسیلات زر سے متعلق یہ اندازے معیشت کیلئے تازہ ہوا کاجھونکا دکھائی دیتےہیں کہ اگلے ماہ جون کے اختتام تک تارکین وطن کی بھیجی گئی ترسیلات زر کا حجم ہدف سے زیادہ رہے گا،تاہم یکم جولائی کو شروع ہونے والے نئےمالی سال میں یہ کم رہیں گی۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہر آنے والے مالی سال میں ترسیلات زر بتدریج بڑھیں گی،حتیٰ کہ 2029-30ءتک ان کا حجم 38 ارب 48 کروڑ 70 لاکھ ڈالرپر پہنچ جائیگا۔آئی ایم ایف کے مطابق اگلے مالی سال میں35ارب76کروڑ10لاکھ ڈالر اور ایسے ہی رواں عرصے میں 36 ارب 20 کروڑ 10 لاکھ ڈالرکی ترسیلات کا تخمینہ ہے۔اس کے مقابلے میں اگر گزشتہ سال کی بات کی جائے تو اس عرصے میں 30ارب25 کروڑ 10 لاکھ کی ترسیلات زر وطن عزیزآئیں۔واضح رہے کہ ملکی برآمدات کا بڑا انحصار زراعت وصنعت پر ہے اور عدم سیاسی استحکام سے یہ دونوں شعبے بری طرح متاثر ہوئےہیں۔ان کے نظرانداز ہونے اور عالمی تناظر میںنئی پالیسیوں کے فقدان سےکپاس اور گندم سمیت بہت سی اشیا واجناس برآمدت میں شامل ہونے کی بجائےالٹا درآمد کرنی پڑیں۔ترسیلات زر میں حالیہ اضافہ وقتی طور پر تو معیشت کوسہارا دے سکتا ہے ،لیکن اسے پائیدار قرار نہیں دیا جاسکتا۔تجارتی توازن ہی معیشت کے سنبھلنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اندرونی محاصل میں اضافہ بہرصورت ضروری ہے۔