• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے ان کا کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام تھا وہاں میرے ایک دوست ملازم تھے میں نے ان کے نام رقعہ لکھ کر انہیں دیا اور ان کا کام ہوگیا۔ ا س کے بعد یہ صاحب میرے پاس تشریف لائے ،میں سمجھا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں لیکن انہوں نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اٹھتے ہوئے کہا ’’میرے لائق کوئی اور خدمت؟‘‘ اگر میں ان صاحب کو نہ جانتا ہوتا تو میں ان کے اس جملے کو ان کی معصومیت یا ان کی نادانی پر محمول کرتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں انہیں جانتا ہوں، ان صاحب کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کے سب لوگ ان کی خدمت پر مامور ہیں چنانچہ اپنے لاکھوں کروڑوں خدام میں سے اگر وہ کسی خوش نصیب کو خدمت کا موقع دیتے ہیں تو یہ دراصل اس کو اور سفارش کنندہ کو ممنون فرماتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح علم نہیں کہ ان صاحب کی اپنے علاقے میں کتنی عزت ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کے اپنے دل میں اپنی بے پناہ عزت موجود ہے، چنانچہ یہ صاحب اپنی سالگرہ پر اپنے والدین کو مبارکباد کا تار بھیجتے ہیں ۔ ان صاحب نے خود تشخیصی سکیم کے تحت اپنا مرتبہ خود متعین کر رکھا ہے۔ چنانچہ اپنے اس مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ کسی کے سلام کا جواب سر کی ہلکی سی جنبش سے، کسی کا مسکراہٹ کے ساتھ اور کسی کے سلام کا جواب اپنی زبان کو حرکت دیتے ہوئے وعلیکم السلام کہہ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کسی سے ہاتھ ملانا ہو تو وہ بھی اس کے اور اپنے مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملاتے ہیں۔ کسی کے ہاتھ میں اپنی ایک انگلی پھنسا دیتے ہیں، کسی کے ہاتھ میں دو انگلیاں دے کراس کی عزت افزائی کرتے ہیں اور کسی کے ہاتھ میں اپنا مرے ہوئے چوہے ایسا ڈھیلا ہاتھ تھما کر اس کے درجات بلند کرتے ہیں۔

موصوف کچھ لوگوں سے معانقہ بھی کرتے ہیں، یہ معانقہ بھی ان کی ترجیحات کے مطابق ہوتا ہے کسی کے کاندھے سے اپنا کاندھا معمولی سا ٹچ کرتے ہیں اور اسے معانقہ قرار دیتے ہیں، بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جن سے یہ پورا معانقہ کرتے ہوںالبتہ کوئی مرگ وغیرہ ہوگئی ہو تو اس موقع پر یہ اپنے اصول سے دستبردار ہو کر سوگوار خواتین سے معانقہ کرتے ہوئے بہت دیر تک انہیں دلاسہ دیتے رہتے ہیں، اس معاملے میں اتنے ’’رکیک الکلب‘‘ واقع ہوئے ہیں کہ ناواقفوں کے ہاں بھی پرسہ دینے چلے جاتے ہیں۔ یہ صاحب اپنی نظروں میں صرف معزز ہی نہیں بلکہ ان کے خیال میں ان کا شمار دنیا کے حسین ترین انسانوں میں ہوتا ہے، اکثر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آئینے سے سوال کرتے ہیں ’’تم نے دنیا میں مجھ سے زیادہ کوئی حسین دیکھا ہے‘‘ جب انہیں آئینے کی طرف سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں ملتا تو وہ اسے اس کی مصلحت اندیشی تصور کرتے ہوئے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔چونکہ انہیں اکثر آئینوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لہٰذا ایک آئینہ ساز نے ان کے گھر کے برابر میں اپنی دکان کھول لی ہے ۔اس درجہ حسین ہونے کے باوجود وہ احباب کی محفل میں اکثر کہتے ہیں ’’خوبصورتی اللہ کی دین ہے، میں نے کبھی غرور نہیں کیا‘‘۔

ایک دفعہ ایک بچے کی نظر ان کی بٹن ایسی آنکھوں، طوطے ایسی ناک اور چٹیل میدان ایسے سر پر پڑی تو وہ نادان ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ ان صاحب نے فوراً اپنی جیب سے ٹافیاں نکالیں جو انہوں نے غالباً ایسے ہی مواقع کے لیے رکھی ہوئی تھیں اور بچے کو تھما دیں۔تاہم موقع پاکر انہوں نے بچے کی کمر پر اتنی تیز چٹکی کاٹی کہ اس نے روتے روتے آسمان سر پر اٹھا لیا، بچے کا باپ گھبرا کرواپس کمرے میں آیا تو انہوں نے بتایا کہ بچے کو کیڑا کاٹ گیا ہے۔ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا جب انہیں اپنے حوالے سے صحیح عرفان ذات ہوا۔

موصوف اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتے اپنی عقل، اپنی فہم اور اپنی رائے کو اٹل جانتے ہیں انہوں نے اپنے ڈرائینگ روم میں سامنے والی دیوار پر لکھ کر لگایا ہوا ہے ’’وہ دیکھو گدھا اختلاف کررہا ہے‘‘ اس کے باوجود اگر کوئی گدھا برسرمحفل اختلاف کرنے سے باز نہ آئے تو یہ اسے اندر سے ’’نیپی‘‘ لاکردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک اختلاف ایک نجس چیز ہے۔ ایک دفعہ کسی دوست کے گھر گئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے ’’معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارہی ہیں‘‘ دوست جانتا تھا کہ یہ صاحب اختلاف کو ایک نجس چیز سمجھتے ہیں چنانچہ اس نے اختلاف سے اجتناب کرتے ہوئے کہا ’’جی ہاں واقعی معاشرے میں برائیاں بہت بڑھتی جا رہی ہیں‘‘۔ اس پر موصوف نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا کہ ’’معاف کرنا مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘۔ دوست حیران ہوا اس نے کہا ’’جناب میں نے بھی تو وہی کہا ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا۔‘‘ بولے ’’نہیں میں نے کہا تھا معاشرے میں برائیاں بڑھ رہی ہیں، آپ نے کہا معاشرے میں برائیاں بہت بڑھ رہی ہیں، میں کہتا ہوں صرف بڑھ رہی ہیں، بہت نہیں بڑھ رہیں‘‘۔ اس پر دوست اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اندر سے اپنے بچے کی نیپی لا کر انہیں پیش کردی۔

موصوف مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ایسے مسائل کو پاکستان کیلئے انتہائی اہم اور تشویشناک مسائل قرار دیتے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ جس طرح ہر زہر میں تریاق موجود ہوتا ہے اسلئے ان تمام مسائل پر قابو پانے کیلئے آبادی میں بے پناہ اضافہ کیاجائے تاکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اس درجہ اضافہ ہو کہ لوگ جینے پر مرنے کو ترجیح دینے لگیں چنانچہ جب خودکشیوں کی تعداد میں معقول اضافہ ہوگا تو اسکے نتیجے میں آبادی کم ہوگی اور آبادی کم ہوگی تو مہنگائی اور بیروزگاری بھی خود بخود کم ہو جائیگی۔ انہوں نے اپنا یہ تھیسز ایک انگریزی زبان میں بہت تفصیل اور بہت دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اور ہر آنے جانے والے کوپڑھاتے ہیں ۔ انگریزی کے بارے میں ان صاحب کا خیال ہے کہ انگریزی صاحبوں کی اور اردو پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ مصاحبوں کی زبانیں ہیں، انکا خیال ہے کہ انسان انگریزی میں بات کرتے ہوئے دوسروں کے علاوہ خود کو بھی معزز محسوس کرتا ہے، کچھ اسی طرح کے خیالات ان کے انگریزی کھانوں کے بارے میں بھی ہیں۔ تاہم انگریزی کھانا وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے پرہجوم ڈائننگ ہال میں اور دیسی کھانا اپنے باورچی کے کوارٹر میں اندر سے کنڈی لگا کر کھاتے ہیں۔ باورچی کئی دفعہ ان سے شکایت کر چکا ہے کہ جناب کوئی گھٹیا آدمی اکثر میری عدم موجودگی میں میرا کھانا کھا جاتا ہے۔ یہ واحد موقع ہےجب وہ باورچی کو ڈانتے ہوئے شرف انسانیت کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کبھی کسی کو گھٹیا نہ سمجھو، سب انسان برابر ہیں۔

تازہ ترین