• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوستی کے حوالے سے فارسی کا ایک شعر ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے جس میں شاعر نے کہا ہے کہ ’’:دوست آن باشد کہ گیرد دستِ دوست+ در پریشان حالی و درماندگی‘‘ دوست وہ ہوتا ہے جو پریشان حالی اور درماندگی میں دوست کا ہاتھ تھامے۔ اس باب میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ ایران نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ ۱۹۶۵ء کا معرکہ ہویا ۱۹۷۱ء کی جنگ ایران ایک اچھے دوست اور ہمسائے کی طرح پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا۔ حالیہ پاک بھارت معرکے میں بھی ایران کا کردار قابل تعریف رہا۔ اس موقع پر ایرانی صدر نے وزیر اعظم پاکستان کو ٹیلی فون کر کے ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی جسے وزیر اعظم نے بلا تاخیر قبول کیا اور ایرانی وزیر خارجہ نے اسلام آباد اور دہلی کا دورہ کر کے علاقے میں پیدا ہونے والے تنائو کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم پاکستان نے جس پر انھیں بہترین سفارت کار قرار دیا اور ان کی اس کوشش کو ایک بروقت سفارتی اقدام سے تعبیر کیا۔ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے اعتراف کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے ایرانی صدر کی دعوت پر ایران کا دورہ کیا۔ اس دورے کے حوالے سے ایران میں خاصی گرم جوشی پائی گئی۔ ایرانی میڈیا نے پاکستانی وزیر اعظم کے دورے سے بہترین توقعات وابستہ کیں۔ وزیر اعظم کا جس گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اس سے پاکستان جیسے برادر مسلم ملک کے لیے ایرانی حکومت اور عوام کے جذبات واحساسات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تہران یونیورسٹی میں بھی اس دورے کا چرچا رہا۔ تہران یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جس میں اس وقت پاکستان چیئر فعال ہے پاکستان اور ایران کے دوستانہ روابط کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تہران یونی ورسٹی میں ’’پاکستان کارنر‘‘ قائم کیا جائے تاکہ یہاں کی نسل نو پاکستان کے موقف، قیام پاکستان اور اس کے محرکات اور تاریخ نیز مشاہیر پاکستان سے متعلق بہتر طور پر آگاہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں ڈین آف فیکلٹی جناب ڈاکٹر جواد اصغری سے گفت و شنید ہوتی رہی ہے۔ ڈاکٹر جواد اصغری اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں چنانچہ ان کے تعاون سے یہ بات آگے بڑھی اور وزیر اعظم پاکستان کے دورے کی مناسبت سے یہ تجویز ہوا کہ اگر وزیر اعظم پاکستان اپنے دورے کے موقع پر تہران یونیورسٹی میں پاکستان کارنر کا افتتاح کریں تو یہ بات دونوں ممالک کے علمی حلقوں کے لیے باعث افتخار ہو گی چنانچہ ڈاکٹر جواد اصغری نے اس سلسلے میں حسب ِقواعد تہران یونیورسٹی کی معاونت بین الملل کے ذریعے وزارت علوم، تحقیقات و فن آوری کو ایک خط بھجوا کر اس خواہش سے آگاہ کیا۔ قواعد کی رو سے یونیورسٹی براہ راست وزارت خارجہ یا سفارت خانے کو خط نہیں لکھ سکتی اس لیے معاونت بین الملل نے وزارت فن آوری کو خط لکھا تاکہ وزارتِ فن آوری، وزارت تعلیم کو اور وزارت تعلیم، وزارت خارجہ کو خط لکھے۔ اور یوں وزارت خارجہ، ایران میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کر کے بات کو آگے بڑھائے لیکن وزیر اعظم پاکستان کی تشریف آوری میں چونکہ بہت کم وقت تھا اس لیے یہ خط تمام رسمی مراحل بروقت طے نہ کر سکا اور یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ وزیر اعظم پاکستان تہران یونیورسٹی میں ’’پاکستان کارنر‘‘ کا افتتاح کریں، خیر اللہ نے چاہا تو کسی اور موقع پر یہ خواہش ضرور پوری ہو گی۔ ان شاء اللہ ۔وزیر اعظم پاکستان کے دورے سے دونوں ممالک کے صدیوں پر پھیلے تعلقات کی تجدید ہوئی، جن کی طرف ایرانی صدر جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اپنی استقبالیہ تقریر میں بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے ایران اور پاکستان کے صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں پر پھیلے تمدنی فرہنگی اور تاریخی روابط کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ علاقائی، اسلامی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے مسائل پر ہمارے موضوعات اور مفادات مشترک ہیں جن کے لیے ہمیں مشترک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ایران کے پرامن سویلین ایٹمی پروگرام کو ایران کا حق قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی بہت اہم تھا کہ ہم خطے میں امن واستحکام کیلئے کشمیر سمیت تمام مسائل کو مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے پریقین رکھتے ہیں۔وزیراعظم کے دورے کا نقطہ عروج اپنے

وفد کے ارکان کے ساتھ رہبر انقلاب جناب آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات تھی۔ رہبر انقلاب، پاکستان، تاریخ پاکستان، علامہ اقبال اور قائد اعظم سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال سے متعلق ان کی کتاب ’’اقبال :ستارئہ بلند مشرق‘‘ اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے متعلق ان کی کتاب ’’مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان‘‘ اس دلچسپی کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ’’اقبال ستارئہ بلند مشرق‘‘ کسی پاکستانی سے بڑھ کر اقبال دوستی اور اقبال شناسی کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ ’’مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان‘‘ ربیع الثانی ۱۳۸۸ ھ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ٹیپو سلطان سے لے کر سر سید احمد خان تک اور سر سید احمد خان سے قائد اعظم محمد علی جناح تک مسلمانان برصغیر کی جدوجہد آزادی کا احاطہ کرتی ہے۔ رہبر انقلاب نے وزیر اعظم پاکستان اور ان کے رفقا سے ملاقات میں عالم اسلام میں پاکستان کے خصوصی مقام کا ذکر کرتے ہوئے غزہ میں صہیونی حکومت کے جرائم کو روکنے کیلئے ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اور موثر سرگرمیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ کے خاتمے پر اطمینان کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے اختلافات کے حل کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے بہت اچھے، مضبوط اور غیر متزلزل موقف کی تحسین فرمائی۔ انھوں نے آج کی دنیا میں امت اسلامیہ کی عظیم طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایسے حالات میں جب دنیا میں جنگ و جدل پیدا کرنے کے بہت سے محرکات موجود ہیں، امت اسلامیہ کی سلامتی کو یقینی بنانے والی واحد چیز اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور ان ممالک کے درمیان تعلقات کا فروغ ہے۔

وزیراعظم کے دورے پر ایرانی میڈیا کی جانب سے بھی مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا گیا۔ ’’تہران ٹائمز‘‘ کے مطابق دو طرفہ تعاون اور علاقائی استحکام کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دورہ سنگ میل ثابت ہو گا۔ اس دورے سے دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو گا اور سرحدی علاقوں کو معاشی مراکز میں تبدیل کرنا ممکن ہو سکے گا۔ ایران میں وزیر اعظم پاکستان کا پرتپاک استقبال ایرانی خارجہ پالیسی میں کلیدی تبدیلی اور بدلتے حالات میں ایران کی ترجیحات کو واضح کر رہا ہے۔ ایرانی ٹیلی ویژن کے مطابق یہ دورہ ’’گام بسیار مہمی‘‘ یعنی نہایت اہم قدم تھا۔

تازہ ترین