کرن نعمان
میاں صاحب کو کام سے واپس آنے میں خاصی تاخیر ہوگئی تھی، پتا کروایا توعلم ہوا، سوسائٹی میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہےاور وہ وہیں موجود ہیں۔ دل کو خاصی تشویش ہوئی۔ پر جب وہ گھر آئے توچہرہ نارمل تھا۔ پُرسکون ماحول میں کھانا کھایا۔ بعد میں دیر سے آنے کی وجہ پوچھی، تو بتانے لگے۔ ’’سوسائٹی کے دو معمّر حضرات ایک تنازعے پر جھگڑ پڑے۔ ایک نے دوسرے پر ہاتھ اُٹھایا تو قریب کھڑے اُن کے دو نوجوان بیٹوں نے پہلے صاحب کو اپنی طرف کھینچا اور عُمر کا لحاظ کیے بنا کئی دھموکے جڑدئیے۔
مَیں اُسی وقت وہاں پہنچا تھا۔ بیچ بچاؤ اور مصالحت کروانے میں اتنی دیر ہوگئی، پھران نوجوانوں سےمعافی منگوانا بھی کڑامرحلہ تھا۔‘‘ اُن کی بات سن کرمَیں نےمُسکرا کر کہا۔ ’’تواس کا مطلب، جناب جنّت میں ایک گھربنا آئے ہیں۔‘‘ یہ سُن کروہ ہنس دیئے۔ ’’چھوڑو، نہ کرو یہ باتیں، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا مقام کہاں ہے۔‘‘ یہ سُنتے ہی ذہن کوجھٹکا سا لگا، کیوں کہ بالکل یہی الفاظ مَیں پہلے بھی کبھی اُن کے منہ سے سُن چکی تھی۔ پر کہاں، یاد نہ آیا۔
اور پھر اگلے روز کچن میں کام کرتے ہوئے وہ بات اچانک یاد آگئی۔ ساتھ ہی مجھے اپنی زندگی کے وہ حسین، اَن مول دن بھی یاد آگئے، جو خدائے بزرگ و برتر نے بے تحاشا دُعاؤں کے بعد عطا فرمائے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں ہماری برسوں مانگی جانے والی دُعا قبول ہوئی اور گورنمنٹ اسکیم کے تحت حج کے لیے نام نکل آیا۔ ہم دونوں میاں بیوی ارضِ مقدّس کےلیےعازمِ سفر ہوئے۔ گوکہ وہاں قیام بیالیس دن کا تھا، لیکن اُن دنوں میں سب سے اہم، قیمتی دن’’یومِ عرفہ‘‘ہی تھا۔
مذکورہ بالا یاد بھی اُسی دن سے منسوب ہے۔ عرفہ کے دن ہرعازمِ سفرکی کوشش ہوتی ہےکہ جلد ازجلد میدانِ عرفات پہنچ جائے۔لاکھوں لوگ پیدل چلے جاتے ہیں، جب کہ سعودی حکومت کی جانب سے منیٰ سے میدانِ عرفات لے جانے کے لیے بسز کا بھی خاص انتظام ہوتا ہے۔ نو ذی الحجہ کو منیٰ میں فجرکے بعد کا وقت انتہائی افراتفری کا ہوتا ہے اور یہی جلد بازی اکثراوقات چھینا جھپٹی، لڑائی جھگڑے کا بھی باعث بنتی ہے۔ ہمارے سامنے بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جس پر ہم ششدر رہ گئے۔
منیٰ میں فجرادا کرکے ہم نے مختصر رختِ سفر سمیٹا اور خیموں سے نکل کر سڑک پر آگئے، جہاں ہزاروں لوگ میدانِ عرفات کی طرف رواں دواں تھے۔ زیادہ تر بسوں میں جانے کے خواہش مند تھے۔ جو بس آتی، لوگوں کا ایک ازدحام اُس کی طرف لپکتا۔
ایسے ہی ایک بس میں سوار ہونے پر ایک جوان اور ایک بزرگ آپس میں الجھ پڑے۔ جوانوں میں جلدی پہنچنے کا جوش ہوتا ہےاور بوڑھوں کوپیچھے رہ جانے کا خوف۔ اِسی جوش میں اُلجھتےجوان نے بزرگ کوتھپّڑ دے مارا۔ اب ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ آس پاس کھڑے مرد اُس جوان کی خُوب سرزنش کرتے، پرمعاملہ برعکس ہوا۔آس پاس جتنے مرد کھڑے تھے، سب بزرگ سے لپٹ گئے۔
جن کا چہرہ لال، غصّےسے بُراحال ہورہا تھا۔ اب کوئی اُن کا ماتھا چُومے، کوئی گال اور کوئی ہاتھ۔ ایک نے تو گھٹنے پکڑلیے۔ لوگوں کے الفاظ کچھ یوں تھے۔ ’’غصّہ نہیں، غصّہ نہیں‘‘، ’’عرفہ کا دن، عرفہ کادن‘‘، ’’حج کا موقع ہے، معاف کردیں‘‘، ’’آج اللہ کی طرف سے معافی کا دن ہے، آپ بھی معاف کردیں۔‘‘، ’’اللہ کے لیے معاف کردیں، وہ آپ کو معاف کرے گا۔‘‘ ’’معاف کردو بزرگو، حج بچالو۔‘‘ لوگوں کی یہ باتیں سُن کر اُن بزرگ کا غصّے سے سُرخ چہرہ آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگا۔ اتنے لوگوں کے سامنے بےعزتی کےخیال سے تنے اعصاب نرم پڑنا شروع ہوگئے اور آنکھوں میں نمی سی بھر گئی۔
دوسری طرف وہ جوان پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ وہ اپنے ٹھٹھرتے جذبات کے ساتھ آہستہ آہستہ بس سے نیچے اُترگیا۔ بس بزرگ کو لے کر چلی گئی اور وہ سکتےکی کیفیت میں وہیں کھڑےکا کھڑا رہ گیا۔ یقیناً تھپڑ مارتے ہی اُسےاپنی شدید غلطی کا احساس ہوگیا ہوگا اور اُسے لوگوں کے شدید ردِعمل کی توقع بھی ہوگی، پھرجس طرح لوگوں نے بزرگ کو یومِ عرفہ کی اہمیت کا احساس دلایا تھا، یقیناً وہ احساس اُس کے دل میں بھی ندامت وشرمندگی بن کر جاگا ہوگا۔
پیچھے رہ جانے والے ہر شخص نےاُسےمنہ سےکچھ نہیں کہاتھا، پر نفرت بھری نگاہوں سے ضرور نوازا تھا۔ ممکن ہے، اُسے لگا ہو کہ آج اللہ نے بھی اُسے نفرت سےدیکھا ہوگا۔ دوسری بس آئی توہم دونوں بھی اُس میں سوار ہو کرمیدانِ عرفات کی طرف چل دیئے، جب کہ آخری منظر میں وہ نوجوان وہیں پتّھر کا بُت بنا کھڑا تھا۔
میدانِ عرفات کا بھی کیا عالم ہوتا ہے۔ ہر طرف رقّت آمیز مناظر، کہیں لوگ زار و قطار رو رو کراللہ سے گناہوں کی معافی مانگ طلب کر رہے ہوتے ہیں، تو کوئی گھنٹوں سجدے سے سَر نہیں اُٹھاتا۔ کوئی لوگوں کے ہجوم میں گُم تھا، کسی کو کیمپ نہ ملنے کی پریشانی تھی۔ کچھ لوگوں کو سخت گرمی، باتھ روم کی ٹینشن کے سبب قدرے بےزارگی کا اظہار کرتے بھی دیکھا۔ کچھ خواتین سوتی پائی گئیں۔
عصر کے وقت اُن کے مرد اُٹھانے آئے، تو ہاتھ جھٹک کر پھر سوتی بنیں۔ ہمارے یہاں اکثریت ساری عُمرمیں ایک ہی بار فریضۂ حج ادا کرپاتی ہے اور اُس میں بھی خاص عرفہ کادن۔ کوئی کیسے اتنا لاپروا ہوسکتا ہے، یہ سوچ کرآج بھی حیران ہوتی ہوں۔ بہرحال، اُس دن دو افراد خاص طور پر ہماری توجّہ کا مرکز تھے۔ ایک وہی بزرگ، جوعرفات میں پاکستانی کیمپ پہنچ کر بھی کھوئے کھوئے سے تھے اور دوسرا وہی جوان، جو پورے کیمپ میں بولایا بولایا، نظریں جھکائےپھررہا تھا۔
مگر پھر…عصرسے کچھ پہلے ہم نے دیکھا کہ اُس نے اُن بزرگ کے قدموں پر سر رکھ دیا اور اتنی شدّت سے پُھوٹ پُھوٹ کر رویا کہ چند لمحوں کو لگا، اپنی جان ہی دے دے گا۔ اب سب کی نگاہیں بزرگ پر ٹکی تھیں۔ کچھ دیر تو وہ سناٹے کی سی کیفیت میں چپ چاپ اُسے دیکھتے رہے، پھرنم ہوتی آنکھوں سےاُس کا سراُٹھایا، ماتھے پربوسہ دیا اور سینے سے لگالیا۔ یہ منظردیکھ کر ہم دونوں کی آنکھوں میں بھی آنسوآگئے۔ مغرب کا وقت تھا۔
یومِ عرفہ تمام ہونےکوتھا۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک ساتھ کُھلے آسمان تلے کھڑے دُعا میں مشغول تھے۔ تبھی مَیں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ ’’اِن دونوں میں سے کس کا عمل اللہ کو زیادہ پسند آیا ہوگا اور کس کا مقام زیادہ بلند ہوگا۔ معافی مانگنے والے کا یا معاف کردینے والے کا؟‘‘ تب انہوں نے کہا۔ ’چھوڑو، نہ کرویہ باتیں، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا مقام کہاں ہے اورکس کا عمل اُس کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔‘‘
آج مَیں اکثرسوچتی ہوں کہ غلطی، گناہ کس سے نہیں ہوتے پراصل بات اُن کا احساس ہے۔ افضل عمل غلطی یا گناہ چھوڑ کرصراطِ مستقیم کی طرف واپس پلٹنا ہے اور انسانیت کی معراج یہی ہے کہ پلٹ آنے والوں کا کُھلے دل سے خیرمقدم کیا جائے۔ عفوودرگزرکے رویے سے معاشرے میں اُن کا جینا آسان کیا جائے۔ بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔
لوگ صبروشُکر، عفو درگذر جیسے پیارے رویّوں سے عاری ہوتےجارہے ہیں اور اِسی سبب خاندانی و معاشرتی نظام غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ سو، سنجیدہ مکتبۂ فکرکی یہ ذمّےداری ہے کہ وہ نفسانفسی کے شکار اس معاشرے میں اچھے رویوں کی پرداخت کے لیے کام کرے۔ لوگوں میں اُمید جگانے، حوصلہ بڑھانے کے ضمن میں بہترین صلاحیتیں بروئے کارلائے۔ دُعا ہے کہ معاشرے میں اچھائی ہی اچھائی پروان چڑھے اور برائی جڑ سے اکھڑ جائے۔