• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے کچھ کچھ پیوستہ) ہوٹل واپس پہنچ کر میں نے لیپ ٹاپ نکالا اور ائیر لائن کی ویب سائٹ پر اپنا پاسپورٹ نمبر درست کرنے کی کوشش کی۔ لگ بھگ دو گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد کامیابی ملی، سکھ کا سانس لیا۔ شنگھائی کی پرواز صبح گیارہ بجے کی تھی، چینی میزبانوں نے مجھے ہاربن ہوائی اڈّے سے یوں الوداع کیا جیسے میری ’رُخصتی‘ ہو۔ شنگھائی میں میرا معاون کوئی نہیں تھا، اِس مرتبہ لِلی نے پوچھا ’’اب کیا ہوئیں گا؟‘‘ میں نے گہرا سانس لے کر کہا ’’دیکھتے ہیں۔‘‘ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شنگھائی میں کس قسم کی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہے۔ شنگھائی کے ہوائی اڈے سے ہوٹل کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا تھا، چیک اِن کے وقت ہوٹل والوں نے مجھے جوس نما کوئی شے پینے کے لیے پیش کی، وہ مشروب نہ ٹھنڈا تھا نہ گرم، نہ میٹھا نہ نمکین، نہ قہوہ نہ کولا....میں نے شکریے کے ساتھ واپس کر دیا۔ کمرے میں سامان رکھا، تازہ دم ہوا، سوچا کہ شہر کا سرسری چکر لگا لیا جائے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، ہوٹل والوں نے اتنی مہربانی ضرور کی کہ ایک چھتری ہاتھ میں پکڑا دی اور پھر یہیں سے میرا امتحان شروع ہوگیا۔ میں نے استقبالیے پر موجود نوجوان سے پوچھا کہ یہاں دیکھنے والی کون کون سی جگہیں ہیں، پہلے تو اُس نے ’چِٹّا انکار‘ کرتے ہوئے کہا کہ ’نو انگلش‘۔ پھر میری شکل پر ترس کھا کر اُس نے موبائل فون کھولا اور کہا کہ اِس میں بولو، فون نے چینی میں ترجمہ کیا، پھر اُس مردِ عاقل نے چینی زبان میں کچھ کہا، اُس کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور میرے سامنے رکھ دیا جو کچھ یوں تھا کہ ’’کافی جگہیں ہیں۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ یہ عشق نہیں آساں۔ اِس سے پہلے کہ میں بالکل ہی مایوس ہو جاتا، اُس نے مجھے شنگھائی کا نقشہ تھما دیا، مجھے یوں لگا جیسے میں قبل از مسیح کے دور میں واپس آگیا ہوں جب سیاحت گوگل اور موبائل فون کے بغیر ہوا کرتی تھی۔ بدقت تمام دی دی نام کی ایپ ڈاؤن لوڈ کی جو چین میں اوبر کا متبادل ہے، ٹیکسی منگوائی، اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایپ نے کرایہ بیس یوان بتایا، ڈرائیور نے زبان نہ سمجھنے کی اداکاری کرتے ہوئے مجھ سے موبائل فون لیا، سواری کی درخواست منسوخ کی، اور پھر اشارہ کرکے کہا کہ اِس فون میں لکھ کر بتاؤ کہاں جانا ہے، میں نے جگہ کا نام بتایا تو کہنے لگا ڈیڑھ سو یوان۔ باقی تاریخ ہے۔

پیپلز سکوائر کو اگر آپ شہر کا مرکز سمجھ لیں تو وہاں سے نِنجِنگ روڈ کا فاصلہ دس منٹ پیدل کا ہے، لیکن اگر آپ میٹرو سے جائیں تو بیس منٹ لگتے ہیں کیونکہ میٹرو میں زیرِزمین آپ کو پندرہ منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ شنگھائی کی میٹرو شاندار ہے، یہ واحد شے تھی جسے استعمال کرنے کیلئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی، اور ٹکٹ خریدنے سے لے کر اپنا اسٹاپ پہچاننے تک تمام مراحل نہایت آسانی سے طے ہو گئے۔ نِنجِنگ روڈ کی پیڈسٹرین اسٹریٹ ایسے ہی ہے جیسے نیویارک کا ٹائم اسکوائر، وہی آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں، مہنگے برانڈز اور چاروں طرف روشنیوں کا سمندر۔ لیکن ٹائم اسکوائر کے برعکس شنگھائی کا یہ علاقہ رات گیارہ بجے کے بعد بند ہونا شروع ہو جاتا ہے، حتّیٰ کہ ویک اینڈ پربھی یہاں رات کو لوگوں کا رش بہت کم ہو گیا تھا۔ یہ بات مجھے شنگھائی کے شایان شان نہیں لگی کیونکہ جس طرح اِس شہر کا کرّوفر ہے اُس لحاظ سے یہاں ساری رات کم از کم چَمار چودَس تو ہونا ہی چاہیے۔ جو وجہ مجھے سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ نہ صرف شنگھائی بلکہ پورے چین میں ہی غیر ملکی سیاح اتنی تعداد میں نہیں آتے جتنے آنے چاہئیں اور اِس کی وجہ زبان و بیان کی بندِش ہے۔ چین میں اگر آپ کے ساتھ مترجم نہیں ہے تو یوں سمجھیں کہ آپ نابینا ہیں اور آپ کو سفید چھڑی ہاتھ میں پکڑ کر اندازے سے عمارتوں اور مقامات کو ٹٹول ٹٹول کر چلنا ہوگا۔ دنیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جہاں زبان اجنبی ہوتی ہے مگر بندہ گوگل سے بہترین کام چلا لیتا ہے لیکن چین کی اپنی ایک علیحدہ دنیا ہے، انہیں کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اِن کا گوگل، فیس بک، اوبر، وٹس ایپ سب کچھ مقامی ہے اور چینی زبان میں ہے۔

ویسے تو شنگھائی جیسے شہر میں دو راتیں بالکل ناکافی ہیں، لیکن پھر بھی اگر آپ شنگھائی کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو رات کو شِن تیاندی کے علاقے کی سیر کریں، شنگھائی یہاں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ریستوران، کیفے اور آئس کریم کی دکانیں ہیں جہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے، اور شاپنگ مالز کی تو پورے شنگھائی میں بھرمار ہے۔ شنگھائی دنیا کے اُن شہروں میں سے ایک ہے جس کے دس میں سے دس نمبر پورے ہیں، تاہم جتنا خوبصورت یہ شہر ہے اُتنی حسینائیں یہاں نظر نہیں آئیں لہٰذا خوش خطی کے نمبر کاٹے جا سکتے ہیں۔ نِنجِنگ روڈ کی بات درمیان میں ہی رہ گئی، یہ سڑک آگے دریا تک جاتی ہے، اِس علاقے کو بند کہتے ہیں، اور اِس سے مراد دریا کا بند ہے، دریا شنگھائی کے درمیان سے گزرتا ہے جس کے ساتھ ساتھ پُرشکوہ عمارتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یوں چلتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر بندہ چکرا کر رہ جاتاہے کہ آخر اِن عمارتوں کے مالک کون لوگ ہیں اور یہاں کیا کیا کاروبار ہوتا ہے۔ دریا کے سامنے سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے، یہاں پولیس ہمہ وقت گشت پر ہوتی ہے، خوش قسمتی سے ایک پولیس والا مل گیا جسے انگریزی آتی تھی، اُس سے دریا کی سیر کا طریقہ پوچھا، اُس نے بتایا کہ دو کلومیٹر پیدل چلنا پڑے گا، بہتر ہوگا کہ آپ کل صبح آئیں اور کروز کی ٹکٹ لیں۔ اُس دانا شخص نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آج رات شنگھائی کی سیر ’ہاپ آن ہاپ آف‘ بس پر کر لو۔ بات معقول تھی، سو عمل کر ڈالا۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں یہ بسیں ہوتی ہیں اور اب تو اپنے لاہور میں بھی ہیں، شنگھائی کی بس میں البتہ یہ خاص بات تھی کہ کمنٹری صرف چینی زبان میں جاری تھی اور ڈرائیور بس یوں چلا رہا تھا جیسے وڑائچ طیارہ چلا رہا ہو۔ بس ایک پنجابی گانے کی کمی تھی ’میں اُڈّی اُڈّی جاواں ہوا دے نال۔‘

شنگھائی میں ہلکی ہلکی بارش اب بھی جاری تھی، پیپلز اسکوائر سے واپس آتے ہوئے میں ایک کافی شاپ پر رُک گیا، گرما گرم کافی لی، سگار سُلگایا اور باہر ایک کُرسی گھسیٹ کر کافی کے گھونٹ لینے لگا۔ طبیعت بشاش ہو گئی۔ شنگھائی کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں، شہر کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا سِمٹ کر اسی شہر میں آگئی ہو۔ میں نے کافی ختم کی، سگار بجھایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ رات ڈھل رہی تھی اور اگلی صبح مجھے اپنی دنیا میں واپس جانا تھا۔ (جاری ہے)۔

تازہ ترین