حالیہ مختصر جنگ میں پاکستان نے بھارت کو بھرپور اور موثر جواب دیکر بتادیا کہ اگر کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو جواب وہی ہوگا جو اس نے کرکے دکھا دیا، اس جنگ میںجہاں عالمی سطح پر ہماری صلاحیتوں ، شجاعت اور مہارت کا اعتراف کیا گیا وہیںیہ ملک میں سیکورٹی اداروں کیخلاف پچھلے کئی ماہ سے چلائی جانے والی منفی مہم کے خاتمے میں بھی مدد گار ثابت ہوئی،اس جنگ میں مودی کی جنگی سوچ کو شکست کاسامنا کرنا پڑا،اسی لئے جنگ کے بعد مودی اپنے ملک میں سیاسی اور عالمی سطح پر تنہا ہوچکا ہے ۔ حالیہ جنگ میںمہم جوئی،انتہا پسندی، جنونیت،دہشت گردی کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا ، دفاعی ، سفارتی، میڈیا کے محاذ پرپاکستان کو فتح ملی توبھارت کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی مداخلت سے جنگ تھم گئی تاہم کشیدگی برقرار ہے، کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے۔ دونوں ملک جنگ کے قریب بھی ہیں اور جنگ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔مودی کی مجبوریوں کا سب کو اندازہ تھا۔ پاکستان کا موڈ بھی سب کو پتہ تھا۔ اسی لیے پاکستان نے موثر جواب دیا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ کیا جنگی ماحول رہے گا۔خدشہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ مستقبل میں کشیدگی کے شدید تر ہونے کے امکانات ہیں ،آئندہ تصادم ہوا تو جنگ بھارت اور پاکستان تک محدود نہیں رہے گی پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئیگی۔ بڑی طاقتوںکو دنیا کو اس تباہ کن صورت حال سے بچانے کی خاطراپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ جنگ بندی کے بعد بھار ت نے سندھ طاس معاہدے کو بحال نہیں کیا، اسکی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ثالث بننے والے امریکا کی طرف سے اس ضمن میں اب تک کوئی مؤثر پیش رفت نہ ہونےکے برابر ہے۔بھارت سمیت تمام عالمی قوتوں کو سمجھ لینا چاہئےکہ پاکستان کو طاقت کے بل پر کسی بھی صورت دباؤ میں نہیں لایا جاسکتا۔ پاک بھارت روابط کی بحالی میں بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل اورسندھ طاس معاہدے کی پاسداری ہے۔بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں ،دونوں طرف کے لوگ ترقی اور خوشحالی کیلئے امن کے راستے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت دور اندیشی اور تدبر سے کام لے اور دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری سے غربت میں مؤثر انداز میں کمی لائی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے غربت اور ناخواندگی کے خلاف لڑنا چاہیے، جس سے ہم آنے والی نسلوں کو پرامن خطہ دے سکتے ہیں۔پاک بھارت حالیہ کشیدگی جنگ کی بدلتی ہوئی نوعیت کا واضح ثبوت ہے،بھارت کو مخاصمانہ جذبات سے پاک بات چیت کی جانب آنا چاہیے۔ دونوں ممالک کو طویل مدتی امن کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنے اور بداعتمادی کا سلسلہ روکنے کیلئےقدامت پسند عناصر پر قابو پانا ہوگا۔ حالیہ جنگ کےبعد بھارتی کشیدگی سے نمٹنےکیلئے حکومت نے ملکی دفاع مضبوط بنانے کی خاطرآئندہ بجٹ میں غیرمعمولی اقدامات تجویز کیے ہیں، دفاعی بجٹ میں اضافہ ایسی ضرورت ہےجس کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا،حالیہ جنگی کامیابی سے پاکستان کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بنانےمیں کام یاب ہوگیا ۔اگلے قومی بجٹ میں جہاں دفاع کیلئےخاطر خواہ رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، وہیں حکومت کو اپنی سیاسی ساکھ کو سامنے رکھ کر عوام کیلئے کچھ اچھے فیصلے کرنا ہوں گے،تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔اس وقت حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے پروگرام کی محتاج ہیں۔ جس سے ملک و قوم کو درپیش سیاسی و معاشی بحران سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کو اس سے چھٹکاراحاصل کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی ۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی کے ہوشربا بلوں سے بد حال ہو چکے ہیں۔ حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں اورمراعات میں تو اضافہ کر لیا مگر عوام، تاجروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ان کاعرصہ حیات تنگ کردیا۔ جب تک حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرتی اس وقت تک عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سیاسی بے یقینی، معاشی ابتری اور سماجی تقسیم نےمعاشرے کی بنیادیں ہلا دی ہیں ،وفاقی حکومت آئندہ آنیوالے بجٹ میں عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے۔