امت مسلمہ عید قرباں سے فارغ ہو چکی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے سنت ابراہیمی زندہ کرتے ہوئے جانور قربان کئے۔یہ ایک ایسی مالی عبادت ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان اپنا مال قربان کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ اللہ کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کریم اس تقوی کو دیکھتا ہے جو قربانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوے اسکے پیش نظر ہوتا ہے۔عید قرباں کا مفہوم صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کیساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ عیدالاضحی اطاعت‘ ایثار‘ قربانی‘ توکل اور خلوص جیسی عظیم اقدار کی مظہر ہے۔ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت کی یادگار ہے جس نے انسانیت کو یہ درس دیا کہ اللہ کی رضا کی طلب میں اپنی عزیز ترین شے کی قربانی تقاضائے عبدیت ہے۔ یہ محض جانور قربان کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک گہرا روحانی،اخلاقی اور سماجی پیغام اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس کی روشنی میں فرد اور معاشرہ دونوں اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اگر اس عبادت کے فلسفے کو آج کے دور بالخصوص پاکستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے کئی پہلو ہماری اجتماعی زندگی سے متعلق نظر آتے ہیں۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان بھی کٹھن معاشی،سیاسی اور سماجی دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف مہنگائی،بے روزگاری اور افراطِ زر نے عام آدمی کی زندگی کو تلخ بنا دیا ہے تودوسری طرف طبقاتی خلیج وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں قربانی کا پیغام ہمیں اپنے اندر جھانکنے،اپنی اَنا،تعصب اور خودغرضی کو بھی قربان کرنے کی دعوت دیتا ہے پاکستان جیسے ملک جہاں قریب نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے،قربانی کا جذبہ اگر اخلاص سے ادا کیا جائے تو یہ مذہبی فریضہ ایک فلاحی سرگرمی بن سکتا ہے۔ عید قرباںکا پیغام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ انفرادی طور پر ہمیں اپنی نیتوں اور اعمال کا جائزہ لینا چاہیے جبکہ اجتماعی سطح پر ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنا چاہیے جہاں ایثار، محبت، خلوص، عدل اور مساوات ہو۔ معاشرے میں اتحاد، رواداری، برداشت اور دیانت کے جذبے کو فروغ دیے بغیر ہم سماجی ترقی کی امید نہیں کر سکتے۔ سیاسی قیادت ہو یا عوام سبھی کو اپنی ترجیحات میں قوم اور ملک کو اولیت دینی ہو گی یہی وہ قربانی ہے جو وطنِ عزیز ہم سے مانگ رہا ہے۔ عید قرباں کا درس یہی ہے کہ اپنی ضد اور انا قربان کر کے پاکستان کو بہتر سماجی سیاسی اور معاشی مقام دلانے کے لیے جدو جہد کی جائے۔
آج ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور انتشار کا شکار ہے۔ اپنے علاوہ کوئی کسی دوسرے کی بات تک کو تحمل و برداشت سے سننا نہیں چاہتا۔ اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو دوسروں کے لیے قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔عیدالاضحی ہمیں آپس میں پیار و محبت اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں۔ اچھے برے وقت میں کام آئیں، دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔عید قرباں دینی فریضے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی تہوار بھی ہے ہمارا دین غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے پر خصوصی زور دیتا ہے۔ عید قرباں اسی مقصد کو پورا کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، ماضی میں لوگ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے گھروں میں اہتمام کے ساتھ گوشت پہنچایا کرتے تھے، اصل اہمیت گوشت کی نہیں بلکہ اصل اہمیت اس سماجی شعور کی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کی خبر گیری کی طرف متوجہ کرتاہے۔دکھوں بھری دنیا کو جنت بنانے کیلئے ہمیں اپنی انا قربان کرنی چاہئے جو مسائل کی اصل جڑ ہے ۔
وطن عزیز کو دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان مشکل حالات سے نکلنے کیلئے ہمیں سنت ابراہیمی کی تجدید کرتے ہوئے ایثار و قربانی، رواداری، پیار و محبت کے جذبوں کو فزوں تر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں عدم برداشت محاذ آرائی کی وجہ سے جن مسائل و مشکلات کے سبب ہمار ا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ نہا یت کمزور ہوگیا ہے۔وطن عزیز میں سیاستدانوں کی محاذآرائی نے ناتواں جمہوری پارلیمانی نظام کی بنیادوں کو مزید کھوکھلا کردیا ہے۔۔ اس میں کوئی دو آرانہیں کہ سیاسی قیادت الزام تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست ترک کرکے قومی امور پر سنجیدہ طرز عمل اختیار کرے تو وطن عزیز کا سیاسی ماحول بدل سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں ایک دوسرے کی بات سننے اور برداشت کرنے کے نظریات کو فروغ دیناچاہئے۔ یہی قربانی کا اصل فلسفہ ہے ۔اس موقع پر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں ہمیں معاشرے میں باہمی رواداری کے فروغ کیلئے سچے جذبوں کے ساتھ کام کرنا چاہئے بات چیت کے بند دروازے کھولنے چاہئیں۔تمام سیاسی اشرافیہ کو اپنے انا کے بت توڑ کر پاکستان کے لیے بیٹھنا چاہئے۔پاکستانی قوم کے پاس خوشی اور مسرت کے لمحات بہت تھوڑے ہیں۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کے دانت کھٹے کیے جس سے قوم کا مورال بلند ہوا۔اب سیاسی و معاشی استحکام کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔