آج ہندوستان اور پاکستان کے دانشوروں کا خیال ہے کہ جب تک نوجوان نسل کو ایسے شعور سے مزین نہیں کیا جاتا جس سے نفرت اور عناد کی بجائے امن و آشتی کی فضا قائم ہو، اس وقت تک اس خطے میں امن و آمان اور خوشحالی ممکن نہیں۔ معروف مورخ جے۔ ایم۔ بلاٹ(J.M.Blaut) نے نو آبادیاتی طاقتوں کی سوچ کے بارے میں لکھا ہے کہ شاید دنیاکی تمام تہذیبیں، اپنے ہمسایوں سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو دوسروں سے بہتر، ترقی یافتہ اور اعلیٰ تصور کرتی ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ اس قسم کے دلائل تلاش کرتی ہیں اور ایسے نظریات کی تشکیل کرتی ہیں جنکی وجہ سے وہ اپنی برتری ثابت کر سکیں۔ جن معاشروں میں کوئی نمایاں مذہب ہوتا ہے، وہ معاشرے اپنے نصاب میں مذہب کو ترجیح دیتے ہیں جس طرح ہندوستان کا نصاب بی جے پی کے ادوار میں ہندوتوا کے زیر اثر تشکیل پا رہا ہے اور ہمارے ہاں بھی نصاب میں رجعت پسندی کو فروغ دیا گیا۔ اسی طرح یورپ میں بھی بادشاہ اور چرچ نے مل کر اٹھارویں صدی تک اپنا تسلط قائم رکھا لیکن سب سے پہلے فرانسیسی انقلاب (1789) نے تعلیم کی ذمہ داری چرچ سے چھین لی اور ریاست نے ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جو فرانسیسی معاشرے کی ضرورت تھے۔ نپولین نے تمام تعلیمی ادارے حکومت کی سرپرستی میں لے لئے اور نجی تعلیم پر پابندی عائد کر دی۔لیکن یورپین اقوام نے طویل ترین مذہبی و علاقائی جنگیں لڑ کر یہ شعور حاصل کیا کہ قوموں میں کس طرح نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اور کس طرح ایک قوم کے ہیرو، دوسری قوم کیلئے ظالم اور غاصب بن جاتے ہیں۔ یورپین اقوام کی مثال ہمارے لیے بڑی سبق آموز ہے جس میں خاص طور پر جرمنی اور پولینڈ کی مثال ہمارے حالات سے مطابقت بھی رکھتی ہے کیونکہ دونوں ممالک آپس میں طویل جنگیں بھی لڑ چکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے پولینڈ کے ساٹھ لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتارنے کے علاوہ بہت سارے علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ وارسامیں ان لوگوں کی یاد گار قائم کی گئی جو اپریل 1943کو جرمن فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ان حالات کی وجہ سے اس خطے میں وہی کشیدگی پائی جاتی تھی جو آج کل پاکستان اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ ولی برانٹ (Willy Brandt)جو جرمنی کے چانسلر تھے، انہوں نے 7دسمبر 1970ء کو پولینڈ کا دورہ کیا تو اچانک اس یاد گار مقام پر سجدہ ریز ہو گئے اور سر عام پولینڈ کے لوگوں سے جرمنی کے مظالم کی معافی مانگی جس سے پولینڈ کی پوری قوم حیرت زدہ رہ گئی۔ اسی دن ولی برانٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں نہ صرف دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ سے چھینے گئے علاقے واپس کر دیئے بلکہ دونوں ممالک نے آئندہ کبھی جنگ نہ کرنے کا عہد کیا۔ اسی دوران دونوں ممالک کے مورخین نے مل کر نصاب میں شامل تمام تر نفرت انگیز مواد نکال دیا اور نصاب کو اسطرح تشکیل دیا کہ وہ قومی جذبات اور مفادات سے بلند ہو کر حقائق کو سامنے لے آئے۔ یوں دونوں ممالک کے مورخوں نے مل کر ریاستی نصاب کی کتابوں کے مقابلے میں ایک ایسی مشترکہ تاریخ لکھی جس نے آہستہ آہستہ دونوں ممالک سے نفرت اور تعصب کو دور کر دیا۔ ولی برانٹ کے یہ اقدام جرمنی میں بہت ہی غیر مقبول ہوئے اور اسے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود وہ مسلسل جرمنی اور دوسری یورپین اقوام کو قریب لانے کی دھن میں لگا رہا۔ 1971ء میں ولی برانٹ کو یورپ میں امن کی کوششوں کے سلسلے میں امن کا نوبل پرائز دیا گیا۔ آج ہندوستان اور پاکستان کے راہنما وقت کے تقاضوں، قومی مفاد اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کیلئے اس واقعہ سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آج نریندر مود ی کو چاہئے کہ وہ بھی کشمیری عوام سے انکے مستقبل کے بارے میں رائے حاصل کریں اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستان اور ہندوستان کے مورخ ، حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نصاب ترتیب دیں جو فرقہ واریت، تعصب اور بنیاد پرستی سے پاک ایک ایسا معاشرہ تشکیل کرنے میں مددگار ثابت ہو جو دونوں قوموں کو نہ صرف قریب لے آئے تاکہ ہماری آنے والی نسلوںمیں بھی یورپین اقوام کی طرح شعوری ارتقاء پروان چڑھ سکے۔ آج ہندوستان اور پاکستان کو ایک ولی برانٹ کی ضرورت ہے جو سیاسی لیڈر سے زیادہ ایک اسٹیٹ مین بھی ہواور غیر جذباتی اور غیر مقبول فیصلے کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو جس سے قوم کے دیر پا مسائل حل ہو سکیں۔
ماہرین کا خیا ل ہے کہ صرف بیسویں صدی میں جنگوں کی وجہ سے 175ملین لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر سویلین تھے۔ یہ جنگیں ماحولیاتی تباہی کا باعث بھی بنتی ہیں۔ جنگی اخراجات اکثر صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے بہت اہم شعبوں میں وسائل کم کر دیتے ہیں جس سے طویل مدتی سماجی و معاشی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک ہتھیار خریدنے کیلئے قرض لیتے ہیں جس سے انکے عوام پر غربت کا مزید بوجھ پڑتا ہے۔ آج ہمیں مشترکہ بنیادوں پر انسانیت کو مقدم جان کر ایسا سماج استوار کرنا پڑے گا جس میں ہندوستان اور پاکستان کی تہذیبوں کے مشترکہ لائحہ عمل شامل ہوں جو 1.5ارب لوگوں کو امن و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم دونوں ملک خاص طور پر انڈیا اقوام متحدہ کی عمل داری کو مانے اور ہم اپنے تمام مسائل اس فورم پر حل کریں۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ’’لاش ہند‘‘ کے صفحہ 63پر اس امر کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ ’’بھارت‘‘ اپنی قومی ریاست کو ایک بین الاقوامی ادارے سے ملحق کرنے بلکہ ایک حد تک اس کے ماتحت رکھنے پر بھی تیار ہے۔ ہندوستان کے راہنمائوں کو نہرو کے اس اقتباس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے۔