مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
اُن دنوں مَیں حیدرآباد میں ملازمت کرتی تھی۔ ہفتے میں ایک مرتبہ حیدرآباد سے کراچی چلی جاتی۔ دورانِ سفر درود شریف کا ورد میرا معمول تھا۔ ہر ہفتے کراچی سے حیدرآباد تک کا سفر کبھی پرائیویٹ اور کبھی سرکاری بس، ایس آرٹی سی میں کیا کرتی تھی۔ سفر کے دوران بس کے ڈرائیور ٹیپ ریکارڈر میں انتہائی تیز آواز میں گانے لگا دیا کرتے۔ تیز آواز میں گونجنے والے بے ہودہ بھارتی گانوں سے مجھے سخت ناگواریت کا احساس ہوتا۔ بعض اوقات مسافروں کے اعتراض پر آواز کم تو کردیتے ، مگر بند نہیں کرتے تھے۔
یہ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک مرتبہ کراچی جاتے ہوئے ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو میرے لیے یادگار بن گیا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور میرا روزہ تھا۔ آفس سے جلدی چُھٹّی کے بعد مَیں نے ایس آر ٹی سی بس کا ٹکٹ لے کر جیسے ہی بس میں قدم رکھا، تو واہیات گانے کی زور دار آواز کانوں سے ٹکرائی، تو بے بسی سے لاحول پڑھتے ہوئے سیٹ پر براجمان ہوگئی۔ تاہم، دل کو تسلّی تھی کہ بس چلنے کے بعد رمضان کے احترام میں آواز کم یا بند کردی جائے گی۔ میری سیٹ دروازے کے سامنے تھی۔
سائیڈ میںکنڈکٹر کے بیٹھنے کے لیے اسٹول رکھا تھا۔ بس چلی تو ڈرائیور نے رمضان کے تقدّس کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے گانے کی آواز مزید تیز کردی، جب کہ اسٹول پر بیٹھا کنڈکٹر دیدہ دلیری سے سگریٹ کا کش لگانے لگا۔ میں نے ریکارڈنگ بجانے اور سگریٹ پینے پر اعتراض کیا، مگر کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میرا خیال تھا کہ رمضان کا مبارک مہینہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مسافر بھی میرا ساتھ دیں گے، مگر ایسا نہ ہوا۔ پتا چلا کہ بس میں زیادہ تر روزہ خور ہی بیٹھے تھےاور ان سب کا دھیان کھانے پینے پر تھا۔
وہ جنرل محمد ضیاء الحق کا دورِ حکومت تھا۔ نوری آباد پر بسوں کی سخت چیکنگ ہوتی تھی۔ مَیں نے کئی بار رمضان المبارک کے تقدّس کا احترام کرنے اور گانے بند کرنے کو کہا، مگر انھوں نے ہر بار میری بات ہوا میں اُڑادی۔ بہرکیف، نوری آباد پہنچنے پر بس رُکی، تو دو فوجی اندر داخل ہوئے۔
فوجیوں کو دیکھتے ہی نہ جانے مجھ میں کہاں سے اتنی ہمّت پیدا ہوگئی کہ مَیں نے اُنھیں مخاطب کرکےرمضان المبارک کے تقدّس کو پامال کرنے پرڈرائیور اور کنڈکٹر کی شکایت کردی۔ یہ سُنتے ہی ایک فوجی نے کنڈکٹر کو گریبان سے پکڑا اور چوکی کے اندر لےجاکر بٹھادیا۔
جب دیر ہونے لگی، تو مسافر ، ڈرائیور کو بس چلانے کا کہنے لگے۔ مگر اُس نے یہ کہہ کربس چلانے سے انکار کردیا کہ جب تک کنڈکٹر نہیں آجاتا، گاڑی نہیں چلےگی۔ بہرحال، لوگوں کے شورمچانے اور بچّوں کی چیخ پکار کی وجہ سے کنڈکٹر کو تنبیہ کے بعد آزاد کردیا گیا۔ جس کے بعد بس چلی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اونچی آواز میں ریکارڈنگ بند ہوگئی، کنڈکٹر بھی سگریٹ کے کش لگانے سے باز رہا۔
کراچی پہنچنے سے قبل اس بات کا خدشہ رہا کہ میری ہمّت و بہادری کہیں میرے گلے نہ پڑ جائے اور ڈرائیور مجھے راستے ہی میں بس سے نہ اتار دے، لیکن الحمدللہ، درود شریف کے ورد کی برکت سے پورا سفر بخیر و عافیت طے ہوگیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد بس اسٹاپ پر لوگ اُترنے لگے، تو اُن کے پیچھے میں بھی اُترگئی۔ میرے اُترتے ہی دروازے پر کھڑے کنڈکٹر نے انتہائی رعونت سے کہا۔ ’’لگتا ہے فوجی تمہارارشتے دار تھا۔‘‘
میری بہادری کا دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ میری بھابی کو سوٹ کے لیے کپڑا خریدنا تھا۔ وہ مجھے اور اپنی ایک کزن کو ساتھ لے کر لیاقت آباد کی مارکیٹ گئیں۔ کپڑے کی ایک دکان پر انھیں ایک خُوب صُورت پرنٹ پسند آگیا، تو تھان سے پانچ میٹر کپڑا کٹوالیا۔ دکان دار تھان سے کپڑا کاٹ کر تہہ کرنے لگا، تو اسی وقت مجھے کپڑے کی کنی پھٹی ہوئی نظر آئی، لہٰذا ہم نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ’’اس کی کنی پھٹی ہوئی ہے، دوسرا دے دو۔‘‘ لیکن اس کا اصرار تھا کہ آپ کو یہی لینا پڑے گا۔
میری بھابی اپنا بٹوا ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیں، دکان دار، جو ایک افغانی تھا، کسی طرح کپڑا واپس لینے پر تیار نہیں تھا۔ اسی لمحے اُس کی نظر بھابی کے ہاتھ میں تھامے بٹوے پر پڑی، تو اچانک اُچک کر ان کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔ اُس کی اس بے ہودہ حرکت پر ہم تینوں ہکّا بکّا رہ گئیں۔ بٹوے میں خاصی رقم موجود تھی۔
ہم نے بٹوا واپس کرنے کے لیے کہا، مگر اُس کے کان پر جُوں تک نہ رینگی، بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے تہہ کیے ہوئے کپڑے کے اوپر بٹوے کو اسٹول پر رکھ کر ایک دوسرے گاہک کی طرف متوجّہ ہوگیا۔ مَیں نے زچ ہوکر کہا، ہم ابھی پولیس کو بلاتے ہیں، تو اکڑ کر کہا۔ ’’جاؤ بلالو پولیس، وہ ہمارا کیا بگاڑ لے گی۔‘‘
اگرچہ یہ بات میں نے محض اسے ڈرانے کے لیے کی تھی، مگر اس کی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی دیکھ کر مَیں حقیقتاً پولیس سے مدد حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ سے باہر نکل آئی۔ وہاں ایک اور دکان دارکھڑا تھا، جو یہ سارا معاملہ دیکھ چُکا تھا۔ اُس نے بتایا کہ ’’آپ کو یہاں کوئی پولیس والا نہیں ملے گا، سامنے تھانہ ہے، وہاں جائیں۔‘‘
نظریں دوڑائیں تو تھانہ سامنے نظر آگیا۔ مَیں لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے وہاں جاپہنچی۔ شام پانچ بجے کا وقت تھا،سیدھے ڈیوٹی آفیسر کے کمرے میں چلی گئی اور وہاں موجود پولیس انسپکٹر کو دکان دارکے رویّے اوراس کے بے ہودہ سلوک سے متعلق تفصیلات بتاکر کہا۔ ’’سر! آپ فوری طور پر میرے ساتھ اس دکان تک چلیں، کیوں کہ وہاں میری بھابی اور اُن کی کزن اکیلی ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ انھیں نقصان نہ پہنچادے۔‘‘ پولیس افسر میری شکایت توجّہ سے سُننے کے بعد میرے ساتھ دکان پہنچ گیا۔ وہاں ایک برابر والی دکان پر میری بھابی اور کزن حیران پریشان بیٹھی تھیں۔ دکان دار پولیس دیکھ کرگھبرا گیا۔
تھان کا کٹا ہوا کپڑا اور بھابی کا بٹوا اُسی طرح اسٹول پر رکھا تھا۔ پولیس افسر نے دکان میں داخل ہوتے ہی دکان دار کو دو تھپّڑ رسید کیے اور بھابھی کا بٹوا واپس کروایا۔ بٹوے میں تمام رقم محفوظ تھی۔ تھپّڑ کھانے کے بعد دکان دارکی ساری اکڑ نکل گئی اور وہ معافی مانگنے لگا، مگر پولیس افسر نے اُس کی ایک نہ سُنی اور اُسے گرفتار کرکے تھانے لے گئے۔ ہم تینوں نے اللہ کا شُکر ادا کیا اور پولیس افسر کی بروقت مدد پر اُن کا بھی بہت شکریہ ادا کیا۔ (ایم بانو، طارق روڈ، کراچی)