• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

پیارے بابا، محمد حیدر حسین کو ہم سے بچھڑے کئی برس بیت گئے، لیکن اُن کی یادیں دل میں اب تک تازہ ہیں۔ اُن سے جدائی کا لمحہ آنکھیں نم کردیتا ہے۔ ہمارے بابا میں ایثار و الفت، دانائی و بزرگی اور فہم و فراست جیسی خصوصیات اور صفات بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ اُن کی موجودگی سے گھر میں ہر وقت برکت کی فراوانی، رونق کی فضا اور تحفّظ کا احساس رہتا۔ وہ ہمارے لیے اس شعر کے مصداق تھے کہ؎ اُن کے سائے میں بخت ہوتے ہیں.....باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں۔ 

یہ شعر جس نے بھی کہا، بہت خُوب کہا ہے۔ باپ کی شخصیت واقعتاً گھنے درخت کی مانند ہے، جو اپنی اولاد کو جوانی میں پھل اور بڑھاپے میں سایہ فراہم کرتا ہے۔ خوش نصیب ہیں، وہ لوگ جنہیں یہ چھاؤں میسّر ہے۔ ہمارے سر سے جب باپ کا سایہ اٹھا، تو شدّت سے احساس ہوا کہ اُن کا وجود ہمارے لیے کسی چٹان سے کم نہ تھا۔

ہمارے بابا، صاحبِ کردار، خوش مزاج، با اخلاق اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ بزرگوں، جوانوں اور بچّوں سب میں یک ساں مقبول ۔ جس عُمر کے انسان سے ملتے، اُسی کی سطح اور مرتبے کے مطابق بات کرتے، بزرگوں میں بزرگ، جوانوں میں جوان اور بچّوں میں بچّہ بن جایا کرتے تھے۔ اُن کی طبیعت میں مزاح کا عنصر نمایاں تھا۔ ادبی محافلِ اور مشاعروں میں ذوق و شوق سے شرکت کرتے، بہت سے شعراء کا کلام انھیں ازبر تھا، جو وہ موقع محل کی مناسبت سے سُنایا بھی کرتے۔ 

قوالی اور نعت خوانی کی محافل میں انتہائی عقیدت و شوق سے شریک ہوتے، خاص طور پر نعت خوانی کی محافل میں عقیدت و احترام پورے طور پر ملحوظ رکھتے۔ دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے۔ ان کی نشست و برخاست پُروقار اور پوشاک زیب تن کرنے کا انداز منفرد تھا۔ کُرتا، پاجاما، کوٹ پینٹ یا شیروانی، جو بھی زیبِ تن کرتے، ہر لباس اُن پر خُوب جچتا۔ نیز، ہمیشہ موسم و موقعے کے لحاظ سے لباس اور رنگ کا انتخاب کرتے۔

جامعہ عثمانیہ ،حیدرآباد دکن سے فارغ التحصیل، ہمارے بابا، نہ صرف خاندان بلکہ محلّے بھر کے ہر دل عزیز تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد میں کام آتے، خاندان یا محلّے میں کسی کو بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، تو وہ ہمارے بابا ہی سے رجوع کرتا۔ الحمدللہ، وہ بڑے سے بڑا مسئلہ بھی بڑی آسانی سے حل کردیا کرتے تھے۔ بابا کی بہت سی صفات میں سے ایک صفت یہ تھی کہ وہ بیٹیوں کو بوجھ نہیں سمجھتے تھے، حتیٰ کہ ہمارے اکلوتے بھائی کو بھی ہم بہنوں پر کبھی فوقیت نہیں دی، سب سے برابری کا سلوک روا رکھا۔ 

اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت اُن کی زندگی کا اوّلین مقصد تھا۔ اپنی محدود آمدنی میں ہم سب بھائی، بہنوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور کسی بھی موقعے پر کسی قسم کی کمی کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ اُٹھتے بیٹھتے ہمیشہ نصیحت کرتے کہ ’’چادر دیکھ کر پیر پھیلانا، قرابت داروں کے حقوق ادا کرنا، ضرورت مندوں کی مدد کرنا، کبھی غرور و تکبّر نہ کرنا، ہر ایک سے عاجزی سے پیش آنا۔‘‘

بابا نے عید الاضحی کے چند روز بعد اس دارِ فانی کو خیر باد کہا، تو اب جب بھی بقرعید آتی ہے، اُن کی یاد بہت ستاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے بابا کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں اُن کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق دے۔ (آمین، ثم آمین)۔ (بلقیس متین،فیڈرل بی ایریا، کراچی)