• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیواؤں کا عالمی یوم، خصوصی تحریر
بیواؤں کا عالمی یوم، خصوصی تحریر

’’شوہر کی وفات کے بعد جب لوگ تعزیت کرنے آتے، تو مَیں چُھپنے کی کوشش کرتی اور اُن کا سامنا کرنے سے گھبراتی۔‘‘ ’’خاوند کی رحلت کے بعد پہلی بار اکیلی بینک گئی، تو ایسا لگا، وہاں موجود سب لوگ مُجھ پر ہنس رہے ہیں۔‘‘ ’’میرے میاں گھر کے واحد کفیل تھے۔ اُن کے انتقال کے بعد کوئی ملنے آتا، تو دل میں خیال آتا کہ یہ بچّوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آیا ہوگا۔‘‘ ’’میرا مَرد دُنیا سے رخصت ہوا، تو پینشن کے لیے اس کے کاغذات لے کر دفتروں میں ماری ماری پِھرتی رہی۔ پڑھی لکھی نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہ آتا کہ دفتر والے کون سے کاغذات مانگ رہے ہیں۔ 

مَیں آٹھ بچّوں کا پیٹ پالتی یا ایجنٹ کو پینشن لگوانے کے لاکھ روپے دیتی۔ جس گھر میں صفائی کا کام کرتی تھی، اُس کے مالک کی منّت سماجت کی کہ وہ میرا مسئلہ حل کروادیں، لیکن شاید میری قسمت ہی خراب تھی کہ وہ کاغذات دفتر میں کہیں کھو گئے اور پھر اُمید ہی ٹوٹ گئی۔‘‘ ’’میرا گھر والا مَرا، تو برادری والوں نے بد شگونی کی وجہ سے مُجھے شادی بیاہ میں بلانا چھوڑ دیا اور میرے دیور تنگ کرنے لگے کہ مَیں اپنے شوہر کے آفس سے ملنے والے واجبات اور فنڈ اُن کو کاروبار کرنے کے لیے دے دوں۔‘‘

یہ دُکھ بَھرے، تکلیف دہ الفاظ چند بیوائوں کے ہیں، جو اُن کی جذباتی و نفسیاتی کیفیات کے علاوہ اُن کو درپیش معاشرتی و معاشی مشکلات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ دُنیا بھرکی بیوائیں وہ اہم طبقہ ہے، جسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مصیبت زدہ خواتین نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی پوشیدہ اور اُن کی آواز ناشُنیدہ ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق، اِس وقت دُنیا بھر میں 25.8 ملین بیوائیں اور ان کے 58.4 ملین بچّے موجود ہیں اور 2010ء سے بیوائوں کی تعداد میں سالانہ 9 فی صد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔

عالمی جائزے کے مطابق، ہر تین میں سے ایک بیوہ خاتون بھارت یا چین میں موجود ہے، جب کہ بھارت میں بیوائوں کی تعداد 4 کروڑ 60 لاکھ اور چین میں 4 کروڑ 48 لاکھ ہے، جب کہ ہر 10میں سے 1بیوہ عورت شادی کی عُمر میں ہے۔ بین الاقوامی این جی او کے ایک تخمینے کے مطابق کم ازکم 10سے 15لاکھ لڑکیاں کم سِنی کی شادی کے بعد 18 سال کی عُمر سے پہلے ہی بیوہ ہوچُکی ہیں اور ہر 7 میں سے 1 بیوہ خاتون انتہائی غُربت کا سامنا کر رہی ہے۔

خواتین کی بیوگی کی مختلف سماجی وجوہ میں جنگوں اور تنازعات میں بڑی تعداد میں مَردوں کا لقمۂ اجل بننا سرِفہرست ہے۔ علاوہ ازیں، خطرناک پیشوں سے وابستگی اور زیادہ وقت گھرسے باہررہنے کی وجہ سے بھی مَردوں کی ٹریفک اور دوسرے حادثات میں اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ 

نیز، مَردوں کا جارحانہ مزاج، خطرناک سرگرمیوں میں ملوّث ہونا، پُرتشدّد لڑائی جھگڑے اور خُودکُشیوں کی بڑھتی شرح بھی اُن کی جلد موت کا سبب بنتے ہیں۔ نیز، چوں کہ شادی کے وقت مَرد اور عورت کی عُمر میں تفاوت کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے، تو یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ 

علاوہ ازیں، مَردوں میں سگریٹ، شراب نوشی اور دیگر منشیات کے استعمال کے سبب بھی انہیں مختلف طبّی عوارض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض تحقیقات کے مطابق، مَردوں میں خواتین کے مقابلے میں ڈاکٹروں کے پاس جانے اور اپنی صحت پرتوجّہ دینےکا رجحان بھی کم پایا جاتا ہے۔ 

نتیجتاً، مرض کی تشخیص اور علاج میں تاخیر مزید پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ پھر اگر حیاتیاتی طور پر دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہےکہ صنفِ نازک کا مدافعتی نظام مَردوں کے مقابلے میں مضبوط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف بیماریوں کے نتیجے میں مَردوں کی شرحِ اموات خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے، جب کہ دُنیا بَھر میں خواتین کی اوسط عُمر مَردوں کے مقابلے میں 4سے 6 سال زیادہ ہے۔

بیوگی ایک ایسا کثیرالجہتی تجربہ ہے کہ جس میں خواتین کو بیک وقت گنجلک قسم کے جذباتی، نفسیاتی، ثقافتی، سماجی اور معاشی مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ کسی خاتون کی زندگی کا سب سے سخت اور کڑا دَور بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، بیوگی کی آزمائش ہر خاتون کے لیے مختلف ہوتی ہے اور اس کا دارومدار سماج، ثقافت، مذہب، جغرافیے، معاشرتی حیثیت، معاشی معاملات، بچّوں کی موجودگی، شوہر کی موت کی وجہ اور خُود خاتون کی افتادِ طبع اورعُمر پر ہوتا ہے، جب کہ جوان بیوہ خواتین کی مشکلات عُمر رسیدہ بیواؤں سے یک سَر مختلف ہوتی ہیں۔ 

خاوند کی موت کی صُورت احساسِ تنہائی، اپنے شریک ِحیات کو کھو دینے کا غم اور شوہر کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں عورت کو بےچین و بےقرار رکھتی ہیں، نتیجتاً وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ بیوگی عام طور پر عورت کے لیے شناخت کا بُحران بھی لے کر آتی ہے، کیوں کہ عموماً معاشرے میں خواتین کی پہچان اُن کے شوہروں ہی سے ہوتی ہے۔ 

جیون ساتھی کے انتقال کے نتیجے میں ایک مضبوط تعلق کا خاتمہ ہوجاتا ہےاور بیوہ خاتون اپنی زندگی کی سمت کھو دیتی ہے۔ ایک جوڑے کے طور پر روزمرّہ کی مشغولیات اور معمولات، مل کر منائے جانے والے مواقع، جیسا کہ یومِ پیدائش یا شادی کی سال گرہ وغیرہ، زندگی کا توازن، مشترکہ خواب، جن کی تکمیل کے لیے میاں بیوی مل کر محنت کرتے ہیں یا متوقع مستقبل، سب کچھ ختم ہوجاتا ہے اور ایک بیوہ خاتون خودکو بےسہارا اور لاچار محسوس کرنے لگتی ہے۔

بیوائوں سے متعلق معاشرتی طرزِ عمل خاصا اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں عموماً بیوہ خواتین کو منفی رویّوں اور تعصّب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ خُود بھی ذاتی روابط کی کمی کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اِسی طرح بعض معاشروں میں بیوگی کو ایک عیب سمجھا جاتا ہےاور اہم مواقع، تہواروں اور تقریبات میں اِن خواتین کو برائے نام اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا لوگوں سے میل جول کم ہوجاتا ہے۔ 

نیز، مشترکہ خاندانی نظام اورپِدرسری سماج میں شوہر کی موت کے بعد بیوہ خواتین کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے بھی الگ کردیا جاتا ہے۔ ایک بیوہ خاتون پر خاندان کے مَرد اپنے فیصلےمسلّط کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اُس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً، اُسے معاشرتی دباؤ کے زیرِاثر ایک ناپسندیدہ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔

دُنیا کے مختلف ممالک میں بیوائوں کو دقیانوسی تصوّرات اور قبائلی روایات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے نہایت سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بعض معاشروں میں بیواؤں کو غیر انسانی رسومات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، اُنہیں اپنی مرضی سے کھانے پینے، بننے سنورنے اور کہیں آنےجانےکےحق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ 

اِسی طرح بعض توّہم پرست معاشروں میں بیوائوں کو بیماری کی منتقلی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور انہیں سماجی ڈھانچے سے مکمل طور پر الگ کردیا جاتا ہے، تا آنکہ وہ مخصوص دستور کے مطابق صفائی و پاکیزگی کے عمل سے نہ گزریں، جس میں انہیں جسمانی نقصان کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ چُوں کہ ان پس ماندہ معاشروں میں عورت کی قدرواہمیت اُن کے شوہروں سے مشروط ہوتی ہے، لہٰذا، خاوند کی موت اُن کے لیے تنہائی، غُربت اور تشدّد ہی لے کر آتی ہے۔ عام طور پر شریک ِحیات کی موت کے بعد بیواؤں سے خاندان اور رشتے داروں کا رویہّ ناقابلِ بیان حد تک تکلیف دہ ہوتا ہے، حتیٰ کہ بچّوں کو بھی ماں سے الگ کردیا جاتا ہے۔ 

الغرض، شوہر کا سایہ سَر سے اُٹھتے ہی خواتین کی اپنی بقا و سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اوراپنے وجود، بنیادی حقوق اوروقار کے لیے ایک طویل جنگ اُن کی اس اذیت کوکئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ بعض خاندانوں میں بیوہ خواتین کو جبراً شوہر کے بھائی یا کسی نام زد رشتے دار کے حوالے کر دیا جاتا ہے، تو بعض ثقافتوں میں بیوہ خواتین کی دوسری شادی کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کی دوسری شادی میں رُکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ 

یہاں برسبیلِ تذکرہ ایک دل چسپ اسٹڈی کا ذکر کرتے چلیں کہ جو شریکِ حیات کی موت کی صُورت خواتین اور مَردوں کے مختلف جذباتی اور سماجی رویّوں کو نمایاں کرتی ہے۔ مذکورہ تحقیق کے مطابق، مَرد، خواتین کے مقابلے میں جلدی اس دُکھ سے نکل جاتے ہیں اور زندگی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نیز، اندازاً بڑی عُمر کی صرف دو فی صد خواتین دوبارہ شادی کرتی ہیں، جب کہ رنڈوے مَردوں میں یہ تناسب 20 فی صد تک ہے۔

اقتصادی اور مالی بُحران پوری دُنیا کی بیوہ خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ شوہر کے آمدنی نہ ہونے سے وہ مالی عدم تحفّظ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مختلف معاشروں میں خواتین مخصوص گھریلو ذمّےداریاں ادا کرتی ہیں اور بچپن سے اُن کی تربیت ان خطوط پر نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے کوئی ملازمت یا کاروبار کریں۔ شوہر کی موت کے بعد جب بچّوں کی کفالت اور گھر کی ذمّےداری عورت پرآجاتی ہے، تو کارِمنصبی کی یہ اچانک تبدیلی اور ذمّے داریوں کا اضافی بوجھ نا تجربہ کاری کی وجہ سے بہت کٹھن ثابت ہوتا ہے۔ 

ایسے میں بیوہ خواتین کو نئے حالات کےمطابق سنبھل کر نئی مہارتیں سیکھ کر معاملات کو سمجھنے میں وقت لگتاہےاور پھر انُہیں کوشش کے باوجود روزگار کے محدود مواقع میسّر آتے ہیں۔ ایسے میں وراثت سےمحرومی بیوہ خواتین کی زندگی مزید دشوار بنا دیتی ہے اور اُن کے لیے جائیداد کا حصول نہایت صبر آزما اور حوصلہ شکن مرحلہ ہوتا ہے۔ 

قانونی امور سے ناواقفیت، اہم کاغذات کی عدم موجودگی یا خواتین کی ان سے لاعلمی مالی معاملات، پینشن اورانشورنس وغیرہ کےحصول کومشکل بنا دیتی ہے اور ایسے میں بیوہ خواتین کا دوسروں سے دھوکا کھانے اور فریب میں آ کرمالی نقصان اٹھانے کاخدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ 

بیوگی کی آزمائش اُس وقت مزید پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوجاتی ہے کہ جب شوہر سے محروم ہونے والی عورت کا تعلق نچلی ذات سے ہو یا وہ ناخواندہ، معذور، بیمار، کم سِن، عُمر رسیدہ، کم زور معاشی پس منظر کی حامل یا کسی دیہی علاقے سے تعلق رکھتی ہو۔ 

اس کے برعکس مضبوط اور صحت مند معاشروں میں خاندان، کمیونٹی، مذہبی تنظیمیں، سماجی انجمنیں، حکومتی اعانت اور تعاون کسی حد تک تسلّی و تشفّی کا باعث ہوتے ہیں اور گوناگوں مسائل پر قابو پا کر نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ بیوہ خواتین بہتر رویّے اور مہذّب برتاؤ کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ لوگوں میں ہمہ وقت اُن کی مدد کے لیے آمادگی، اُن سے ہم دردی اور اُن کی حمایت کا شعور پیدا کرنے کے ساتھ مندرجہ ذیل سفارشات کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے۔

1- بیوہ خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ان کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے معاشرتی، معاشی اور قانونی اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ ان کی پہنچ وراثت، زمین و جائیداد اور پینشن وغیرہ تک باآسانی ہو سکے۔

2- دُنیا بَھر میں رائج امتیازی قوانین اور پِدر سری نظام کی قباحتیں طویل عرصے سے خواتین کو اُن کے جائز حق سے محروم کرتی چلی آرہی ہیں، لہٰذا ان پر نظرِثانی وقت کا تقاضا ہے۔ مقامی اورعالمی سطح پر ایسی پالیسیوں کو فروغ دے کر واضح حکمتِ عملی وضع کی جانی چاہیے کہ جس کےنتیجے میں بیوہ خواتین خود سے متعلق فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔

3-  بیوہ خواتین کی خُود انحصاری اور وقار کے ساتھ بچّوں کی پرورش کرنے کے لیے تعلیم، تربیتی کورسز اور مناسب روزگار تک رسائی ممکن بنانے کے ساتھ مَردوں کے برابر تن خواہ مقرّر کی جانی چاہیے۔

4- موت ایک اٹل حقیقت ہے، جو کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ لہٰذا، شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی ماں کو، جو اُس کے بعد اولاد کی نگہبان ہے، کسی بھی ناگہانی صُورتِ حال اور زمانے کی اُونچ نیچ، مالی معاملات، لین دین اور قانونی امور وغیرہ سے باخبر رکھے، تاکہ کوئی اسے گُم راہ نہ کرسکے۔

5- سرکاری سطح پر بیوہ خواتین کی صحیح تعداد اور اُن سے متعلق مکمل ڈیٹا جمع کیا جائے، جس کی بنیاد پر اُن کی نشان دہی ہو اور اُنہیں سہولتیں فراہم کی جائیں۔

6- مختلف سپورٹ گروپس کے تحت مشاورت اور رہ نمائی کے پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ بیوہ خواتین کی ایک دوسرے سے بات چیت اور دوستی کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیوں کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں۔

7- اگر کسی بیوہ خاتون کی خواہش ہو، تو خاندان یا کمیونٹی کی سطح پر دوسری شادی کی راہ ہم وار کی جائے اور اس رجحان کو معاشرے میں قابلِ قبول بنایا جائے۔

دوسری جانب بیوہ خواتین کو بھی انفرادی طور پر اپنے گردوپیش کے مطابق نئے حالات سے موافقت پیدا کرکے نئی مصروفیات اور مشاغل اختیار کرنے چاہئیں اور زندگی کے نئے معنی و مطالب ڈھونڈنے چاہئیں۔ بیوائوں کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو، اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں بڑھائیں۔ اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ اور کُتب کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہیں۔ بچّوں اور اُن کی اولاد سے دل لگائیں۔ 

باغ بانی، سلائی کڑھائی، پینٹنگ یا سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصّہ لیں۔نیز، اپنی ذہنی وجسمانی صحت کا خاص خیال رکھیں اور ہلکی پُھلکی ورزش یا چہل قدمی کا اہتمام لازماً کریں۔ بعض خواتین بیوگی میں صدمے کا شکار ہو کر دُنیا سے کنارہ کش یا بالکل غیرفعال ہو جاتی ہیں، تو کچھ باصلاحیت، مضبوط خواتین اس سانحے سے طاقت حاصل کرکے اپنی، خاندان اورمعاشرے کی بہبود کے لیے غیرمعمولی امکانات بھی تلاش کرلیتی ہیں۔ تو دراصل یہ بہادر خواتین ہی دوسری بیوہ خواتین کے لیے محرّک اور آئیڈیل ثابت ہو سکتی ہیں۔