• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہاجرت، جبری نقل مکانی: ماضی اور حال کے آئینے میں

انگریزی لفظ ’’ریفیوجی‘‘ کا ماخذ فرانسیسی زبان کا لفظ’’ریفیوج‘‘ ہے، جس کے معنی’’چُھپنے کی جگہ‘‘کے ہیں، جب کہ اِس سے مُراد خطرات، تکالیف سے حفاظت اور پناہ گاہ کے بھی ہیں۔ اردو میں اِس اصطلاح کے لیے مستعمل الفاظ’’پناہ گزین‘‘ اور’’مہاجر‘‘ ہیں۔

جدید تشریح کے مطابق، جن افراد کو نسل، مذہب، قومیت، مخصوص سماجی گروہ سے تعلق یا سیاسی نظریے کی بنیاد پر امتیازی سلوک، ظلم و ستم اور جان کا خوف ہو یا پھر جنگ، تشدّد، بے امنی اور تنازعات کی وجہ سے مجبوراً اپنا مُلک چھوڑنا پڑے، وہ پناہ گزین کی تعریف میں آتے ہیں۔ اِس وقت دنیا بَھر میں جبری نقل مکانی اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔

لگ بھگ120 ممالک میں سرگرم اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے جون2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا میں 122.6ملین افراد کو بحالتِ مجبوری اور جبراً اپنے گھر چھوڑ کر نقل مکانی کرنی پڑی، جن میں43.7 ملین پناہ گزین(32 ملین یو این ایچ سی آر کے مینڈیٹ کے تحت، چھے ملین فلسطینی یو این آر ڈبلیو اے کے کے تحت اور 5.8ملین بین الاقوامی تحفّظ کے خواہاں)، 72.1ملین اپنے ہی مُلک میں دربدر آئی ڈی پیز اور 8ملین پناہ(اسائلم ) کے خواہش مند شامل ہیں۔

یہ تعداد2023 ء سے پانچ فی صد زیادہ ہے، جو پناہ گزینوں کے تیزی سے بڑھتے گراف کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو شام، افغانستان، وینزویلا، یوکرین، سوڈان، میانمار، فلسطین، یمن، صومالیہ، برونڈی، کانگو، گوئٹے مالا، ہونڈورس اور ایل سلوا ڈور سے سب سے زیادہ ہجرت ہوئی۔ 

دنیا میں موجود آدھے پناہ گزینوں کا تعلق اِس فہرست میں شامل چار ابتدائی ممالک سے ہے۔ 2024 کے ابتدائی چھے ماہ میں پناہ گزینوں کی تعداد بڑھنے کی بڑی وجہ سوڈان اور یوکرین سے نقل مکانی ہے،جب کہ2011 ء سے لے کر فروری2025 ء تک شام میں تنازعات اور خانہ جنگی میں گِھرے تقریباً 14ملین افراد دربدر ہوئے اور یہ پناہ گزینی کے ضمن میں سب سے بڑا بحران ہے۔

اگر پناہ گزینوں کے بڑے میزبان ممالک کا ذکر کریں، تو وہ ایران، تُرکیہ، کولمبیا، جرمنی، یوگنڈا اور پاکستان ہیں۔ علاوہ ازیں روس، اردن، لبنان، بنگلا دیش، جنوبی سوڈان، چاڈ اور ایتھوپیا بھی اِس فہرست کا اہم حصّہ ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ71 فی صد ریفیوجیز کی نگہہ داشت کرنے والے کم زور یا درمیانی درجے کی معیشت والے ممالک ہیں، جب کہ29فی صد کی میزبانی زیادہ آمدنی والے، یعنی امیر ممالک کر رہے ہیں۔ یہ ایک قابلِ فہم امر ہے کہ پناہ گزینوں میں سے اوسطاً69 فی صد ہم سایہ ممالک میں پناہ حاصل کرتے ہیں اور صرف31 فی صد کی رسائی دُور دراز ممالک تک ہو پاتی ہے۔

اِس پناہ گزینی یا نقل مکانی کے پیچھے کار فرما عوامل میں تنازعات، جنگیں، ایذا رسانی، ظلم و ستم اور قدرتی آفات شامل ہیں، مگر عام طور پر سیلاب، زلزلے، طوفان اور آندھیاں وغیرہ مُلک کے اندر ہی نقل مکانی(آئی ڈی پیز)کا سبب بنتے ہیں۔ آہستگی یا طویل مدّت میں اپنے اثرات مرتّب کرنے والی وجوہ میں آب و ہوا کی تبدیلی، خشک سالی، زمین کا ریگستان میں بدلنا، سیم وتھور اور سطحِ سمندر کا بلند ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ 

یہاں یہ میزان بھی دل چسپ ہے کہ 2010 ء میں61 فی صد ریفیوجی، جو اسائلم اور پناہ کے خواہش مند تھے، ایسے علاقوں سے نکلے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیادہ نشانے پر تھے، جب کہ 2022 ء میں یہ تعداد 84 فی صد ہو گئی۔ 2020 ء میں صرف ایک فی صد ایسے علاقوں سے نکلے پناہ گزین واپس اپنے آبائی وطن لَوٹے۔

یہ فکر انگیز رجحان ماحولیاتی تبدیلی کے بُرے اثرات کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، انسانی ساختہ سماجی و اقتصادی محرومیاں بشمول خوراک، پانی، تعلیم، روزگار اور صحتِ عامّہ کے نظام کی عدم موجودگی بھی افراد کے اپنا مُلک چھوڑ کر دوسرے مُلک منتقل ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔

بے سروسامانی کی حالت میں بھاگ کر دوسرے مُلک پہنچنے والوں کی مشکلات کبھی ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ایک دائرے کی صُورت اُن کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ اُنہیں نہ صرف فوری طور پر خوراک، لباس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کی احتیاج ہوتی ہے، بلکہ طویل مدّتی مسائل میں شہری حقوق سے محرومی، آمد و رفت پر قدغن، غربت، روزگار، بچّوں کی رسمی تعلیم، بینک اکاؤنٹ کھلوانے، جائیداد خریدنے اور طبّی دیکھ بھال کی مناسب سہولتیں میسّر نہ ہونا وغیرہ بھی شامل ہیں۔

ایک سروے کے مطابق، نصف سے زاید پناہ گزین 18سال سے کم عُمر اور بچّے ہیں، جب کہ حالیہ برسوں میں تقریباً دو ملین بچّوں کی ولادت بطور پناہ گزین ہوئی ہے۔ 2018 ء سے 2025 ء کے دوران اوسطاً سالانہ تین لاکھ،39ہزار بچّے پناہ گزین گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ دوسری طرف، خواتین اور لڑکیاں سماجی رسم و رواج، گھریلو کاموں اور ذمّے داریوں کی مخصوص تقسیم کی وجہ سے عام طور پر زیادہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔

پناہ گزینوں کے انسانی اور جذباتی پہلو کا عمیق نظری سے جائزہ لیں، تو واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے میں کام یاب ہونے کے باوجود، اپنے بعض قریبی افراد کھو چُکے ہوتے ہیں یا اُن سے جدا اور دُور ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے گھر بار، مال و اسباب کو تباہ و برباد ہوتے دیکھتے ہیں۔

یوں سخت اور مشکل وقت کی ہول ناک یادیں صدمے کی صُورت ہمیشہ کے لیے اُن کی زندگی کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ یہ ٹراما اُن کی ذہنی اور جذباتی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ نئے مُلک میں زبان، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت اور مذہب کا فرق اُنہیں تنہائی اور سماجی اکیلے پن میں دھکیل دیتا ہے۔ اِس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ مستقبل کی غیر یقینی صُورتِ حال اُنہیں ہمیشہ پریشان رکھتی ہے۔ 2024 ء کے ابتدائی چھے مہینوں میں صرف پانچ لاکھ کے قریب افراد اپنے آبائی وطن واپس ہوئے۔ 

دو تہائی پناہ گزین طویل عرصے تک دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں اُنہیں’’زینو فوبیا‘‘ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’زینو فوبیا‘‘ سے مُراد غیر ملکیوں، غیر نسل، قوم یا ثقافت سے خوف، نفرت یا اُن سے متعلق منفی جذبات اور خیالات ہیں۔ بے روزگاری، غربت اور تعلیم کی کمی کے سبب پناہ گزینوں کے غیر قانونی سرگرمیوں جیسے منشیات، چوری چکاری، اسمگلنگ اور تشدّد وغیرہ میں ملوّث ہونے کے بھی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

1951 ء کے’’ ریفیوجی کنونشن‘‘ کے مطابق149 ممالک نے پناہ گزینوں کو تحفّظ فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ یہ معاہدہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی ابتر صُورتِ حال میں کیا گیا تھا، جب یورپی عوام جنگ اور جبر سے پریشان ہو کر نئے ٹھکانوں کی تلاش میں تھے۔ پھر1960ء کی دہائی میں، جب افریقی ممالک میں نو آبادیات سے دست برداری کا عمل جاری تھا، تو بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے مسئلے نے سَر اُٹھایا۔ 

اس کے علاوہ، بلقان کی جنگیں بھی یورپ میں پناہ گزینوں کی آمد کی وجہ بنیں۔ سردست، برّ ِاعظم افریقا اور برّ ِاعظم ایشیا پناہ گزینوں کے بڑے بحرانوں سے نبرد آزما ہیں کہ پناہ گزینوں کو معروضِ وجود میں لانے والے اسباب یہاں وافر تعداد موجود ہیں۔ 

نہ صرف بیرونِ مُلک، بلکہ اندرونِ مُلک بھی، یعنی داخلی طور پر نقل مکانی بھی دنیا میں سب سے زیادہ یہیں ہے۔ دنیا کے16 ممالک میں، جہاں انٹرنل ڈسپلیسمینٹ ہو رہی ہے، سوڈان، میانمار، کانگو، یوکرین، ہیٹی اور موزمبیق وغیرہ شامل ہیں، جہاں اِس کی شرح90 فی صد تک ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق غزہ میں تقریباً دو ملین افراد اندرونِ مُلک در بدر ہو چُکے ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد اور طویل قیام

1979 ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد تقریباً 10 لاکھ پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے اور1990ء تک یہ تعداد سرکاری تخمینے کے مطابق 32 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پھر 2001 ء میں نائن الیون واقعے کے بعد پناہ گزینوں کی نئی لہر نے پاکستان کا رُخ کیا اور ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد50 لاکھ ہوگئی۔2007 ء میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا، تو تقریباً 27 لاکھ پناہ گزین واپس افغانستان پلٹ گئے۔ 

شماریات کے مطابق، 11 لاکھ افراد نے آزادانہ طور پر بھی اپنے مُلک کی راہ لی، لیکن 2012 ء کے بعد واپس جانے والوں کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ نہ ہو سکا، جس کی وجہ افغانستان کی مخدوش سیاسی و معاشی صُورتِ حال اور وطن واپسی پر پناہ گزینوں کے لیے بہتر زندگی کے مواقع یا تسلّی بخش امکانات کا نہ ہونا تھا۔ 

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، وقتاً فوقتاً مختلف عوامل کی بناء پر، اِن پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جاتے رہے، مگر مختلف ذرائع سے حاصل کردہ2025 ء کے ڈیٹا کے مطابق، اب بھی21 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، جن کے اکثریت افغانستان سے ملحقہ صوبوں خیبر پختون خوا میں 54فی صد اور بلوچستان میں24 فی صد آباد ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر مختلف مسائل کی وجہ سے آمد و رفت کا حساب کتاب رکھنا ایک دقیق مرحلہ ہے۔ پچھلے 46 سال سے پاکستان، افغان مہاجرین کی مہمان داری کر رہا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان 1951ء کے ریفیوجی کنونشن کا دست خط کنندہ نہیں ہے۔

پناہ گزینی یا مہاجرت کے خوف ناک انسانی المیے پر عالمی ردّ ِ عمل کا تجزیہ کیا جائے، تو کوئی بہت زیادہ خوش کُن تصویر نہیں ابھرتی۔ 17 دسمبر 2018ء کو ایک گلوبل کمپیکٹ کا انعقاد ہوا، جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا۔ 

اس میں پناہ گزینوں کے مسئلے کے پائے دار حل کے لیے عالمی تعاون پر زور دیا گیا اور چار بنیادی اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ایک لائحۂ عمل طے کیا گیا، جو یہ تھے: (1) میزبان ممالک پر دباؤ میں کمی(2) پناہ گزینوں کی خود انحصاری میں اضافہ(3) تیسرے مُلک کے حل تک رسائی کو وسعت دینا اور(4)پناہ گزینوں کی محفوظ اور باوقار واپسی کے لیے آبائی وطن میں حالات سازگار بنانا۔

یو این ایچ سی آر کی ساری فنڈنگ یا امداد کا دارومدار حکومتوں، یورپی یونین اور نجی شعبے پر ہے۔ اِسی سلسلے میں2023 ء میں’’گلوبل ریفیوجی فورم‘‘ یعنی پناہ گزینوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع ہوا، جس میں پناہ گزینوں اور اُن کے میزبان ممالک سے امدادِ باہمی اور معاونت کے 1600وعدے کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق، مختلف ممالک کی جانب سے 2بلین ڈالرز کی مالیاتی امداد کا اعلان کیا گیا، جب کہ50 ملین ڈالرز نجی شعبے سے بھی آنے کی اُمید ہوئی۔

تاہم، ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا اِس عالم گیر مسئلے کو اجتماعی ذمّے داری سمجھے اور درد مندی سے ایسے ممکنہ حل کی جانب پیش رفت کرے، جس میں پناہ گزینوں کی خوشی اور اطمینان مقدّم رکھا جائے۔ جو دیرپا اور تمام فریقین کے لیے قابلِ عمل اور باعزّت طور پر قابلِ قبول بھی ہو۔ انسانیت کو تعظیم دیتے ہوئے پناہ گزینوں کی توقیر و احترام کا لحاظ کیا جائے اور اُن کی اپنے آبائی ممالک واپسی کی راہ ہم وار کی جائے۔ 

جس حد تک ممکن ہو، پناہ گزینوں کا مقامی طور پر انضمام آسان بنا کر اُن کی آباد کاری کو فروغ دیا جائے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے مہاجرین اور میزبان عوام کے درمیان تقسیم یا خلیج کم کر کے تہذیبی و سماجی طور پر روابط بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ 

دنیا بَھر میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیز میں لچک پیدا کرتے ہوئے ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہئیں، جو ان کی معاشرتی، اجتماعی شمولیت اور قبولیت کو عام کریں۔ اس کے ساتھ، پناہ گزینوں کی صلاحیتوں اور ہنر مندی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہیں معاشرے کا مثبت اور فعال رُکن بنانے پر توجّہ دی جائے۔

ان سب تجاویز کو رُوبہ عمل لانے اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقوامِ عالم کو فیّاضی اور فراخ دِلی کے ساتھ شراکت اور تعاون یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پناہ گزین، میزبان ممالک کی معیشت اور وسائل پر اضافی بوجھ ثابت ہوتے ہیں اور اِس مسئلے سے پیدا سنگین نوعیت کے مختلف چیلنجز پوری دنیا کو کسی نہ کسی صُورت متاثر کرتے ہیں۔ناکافی سرمائے اور قلیل امداد میں ترقّی پذیر میزبان ممالک کے لیے یہ کارِ محال انجام دینا سخت دشوار ہے۔ 

مختلف حکومتیں، این جی اوز اور نجی شعبہ، جو پناہ گزینوں کی زندگی کی نئی شروعات اور تعمیر میں مصروفِ عمل ہے، میزبانوں سے اظہارِ تشّکر اور اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ، اُن کی مدد بھی کرے۔ اِس امر کی جانب توجّہ دلانی بھی ضروری ہے کہ مضبوط معیشتوں، بالخصوص مغربی ممالک کو مزید متحرّک ہوکر پناہ گزینوں کے لیے نئے امدادی پروگرامز شروع کرنے چاہئیں۔ 

وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی امن و استحکام قائم رکھنے کے لیے سنجیدگی اور برق رفتاری سے اُن اسباب کا تدارک کیا جائے، جو نقل مکانی کا سبب بنتے ہیں۔نیز، پناہ گزینوں اور اُن کے میزبان ممالک کو مشکل وقت میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔