اسباب ومحرّکات جو بھی ہوں، زہریلے شیش ناگ کی طرح پھَن پھیلا کر پھنکارنے والی تلخ حقیقت یہ ہے کہ علوم وفنون کی ترقی، ایجادات میں حیرت انگیز پیش رفت، عالی شان درس گاہوں کی چشم کُشا تحقیقات، مصنوعی ذہانت کی کرشمہ سامانیوں، پُرامن بقائے باہمی، کے دلکُشا نعروں، بنیادی انسانی حقوق کے قصیدوں اور سلطانیِٔ جمہُور کی کارفرمائی کے باوجود دنیا بڑی تیزی سے جنگل کے قانون کی طرف پلٹ رہی ہے۔ فریب کاریوں کا رنگ وروغن اُتر رہا ہے اور دَرو دیوار پہ کندہ، حقیقتِ اَزلی وابدی کے الفاظ روشن ہو رہے ہیں کہ ’’بھینس اُسی کی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔‘‘ انگریزی میں اسے ’’مائٹ اِز رائٹ‘‘ (Might is Right) کہا جاتا ہے۔ کوئی دو سوسال قبل چارلس ڈارون کے نظریے کو ’’سب سے طاقت ور کی بقا‘‘ (Survival of the Fittest) کے اصول میں ڈھالا گیا تھا۔ مفہوم یہ ہے کہ غلبہ صرف طاقت وَر اور زبردست کو حاصل ہوتا ہے۔ زندہ وہی رہے گا جو اپنے ماحول اور گردوپیش کا مقابلہ کرنے کی سب سے زیادہ سکت اور طاقت رکھتا ہے۔ یعنی زندگی کا حق صرف طاقت ور کو ہے۔ یہ تصوّر شرفِ انسانیت اور ارفع اخلاقی اقدار کے کتنا ہی منافی سہی، ہر عہد میں زندہ رہا ہے۔ اگر تھوڑا وقفہ آیا بھی تو یہ تازہ توانائی کے ساتھ زندہ تر ہوکے اُبھرا۔ محشر بدایونی نے کہا تھا
اَب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
کوئی ایک صدی قبل، پہلی جنگِ عظیم کے بعد سوچا گیا کہ آندہ ایسے انسانی المیّوں کے سدِّباب کے لئے کچھ کرنا ہوگا۔ سوچ بچار کے بعد ’’جمعیّتِ اقوام‘‘ (League of Nations) کی بنیاد رکھی گئی۔ اپنی آزادی وخود مختاری کے منافی خیال کرتے ہوئے امریکہ نے اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ وقفے وقفے سے، مختلف وجوہات کی بنا پر روس، جرمنی اور جاپان بھی خارج ہوگئے۔ لیگ کی نمائندہ حیثیت کمزور ہوتی چلی گئی۔ اُس نے بعض معاملات میں جُزوی کامیابیاں ضرور حاصل کیں لیکن کوئی رُبع صدی بعد، 1939ءمیں دوسری جنگِ عظیم کا آتش فشاں پھٹ پڑا جو لگ بھگ 9کروڑ انسانوں کو نگل گیا۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی ایٹم بموں کا نشانہ بنے۔ تین لاکھ انسان بھسم ہوگئے۔ دنیا نوع بہ نوع آفات اور مسائل کے دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ ایک پوری نسلِ انسانی زندہ دَرگور ہوگئی۔
1945ءمیں جنگ ختم ہوئی تو دنیا ایک بار پھر، ملبے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھی ۔ سیانوں نے کہاکہ جنگوں جیسے سفاک المیّوں کی روک تھام کیلئے موثر تدابیر کرنا ہونگی۔ سو اقوام متحدہ (UNO) وجود میں آئی۔ سلامتی کونسل، عالمی عدالتِ انصاف، عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق جیسے ذیلی یا خودمختار ادارے قائم ہوئے۔ ترقی پذیر ممالک کی مدد اور باہمی تعاون کیلئے ورلڈ بینک، آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ادارے بنے۔ بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ دنیا امن آشنا ہو۔ جنگوں کو روکا جائے۔ طاقت وروں کو عالمی قوانین اور ضابطوں کے تحت لایاجائے لیکن طاقت کے ’ اتھرے گھوڑے‘ کو لگام نہ ڈالی جاسکی۔ اقوام متحدہ کے قیام کے دو سال بعد ہی اسرائیل عرب جنگ کا شعلہ بھڑکا۔ پھر کوریا کی جنگ شروع ہوگئی جو تین سال جاری رہی۔ گیارہ برس تک ویت نام جنگ کی لپیٹ میں رہا۔ افغانستان پر روس اور امریکہ کی یلغار تیس برس تک آگ اور خون کا کھیل کھیلتی رہی۔ آٹھ برس تک عراق جنگ کی تباہ کاریوں کی زد میں رہا۔1980ءمیں شروع ہونیوالی ایران عراق جنگ آٹھ سال جاری رہی۔1990ءمیں عراق کویت پر چڑھ دوڑا۔ پچھلے دو برس سے روس یوکرین جنگ جاری ہے۔ بیس ماہ سے اسرائیل نے غزہ کو درندگی کی شکار گاہ بنا رکھا ہے جہاں اٹھارہ ہزار بچوں اور تیرہ ہزار خواتین سمیت، پچپن ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ بے سروساماں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کے راستے بھی بند ہیں۔
جنگِ عظیم دوم کو ختم ہوئے اَسّی برس ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد سے مختلف جنگوں کے مجموعی ماہ وسال کا حساب لگایاجائے تو یہ بھی اَسّی سال ہی بنتے ہیں۔ انسانیت نے سُکون کا سانس نہیں لیا۔ گزشہ ماہ اسرائیل جیسا رعونت شعار بھارت، طاقت کے نشے میں پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ اللہ کے فضل سے پاکستان بے بال وپر نہیں۔ سو اُس نے جوابی وار کرکے صرف ساڑھے تین گھنٹوں میں بھارت کو ا پنی اوقات یاد دِلادی۔ چند دنوں بعد اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔ لمحوں میں اُس کی عسکری قیادت اور صفِّ اوّل کے ایٹمی سائنس دانوں کو، چُن چُن کر قتل کر دیاگیا۔ اسرائیل کے سینکڑوں طیارے آزادی سے ایرانی تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے۔ ایران نے مقدور بھر ردّعمل دیا۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کتنا طول پکڑتی اور کیا اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ اسرائیل کی دلیل وہی لاکھوں برس پرانی ہے جو اندھی، گونگی، بہری طاقت کے بطن سے جنم لیتی ہے کہ میرا اسلحہ خانہ بھلے ہلاکت آفریں ایٹمی ہتھیاروں سے بھرا پڑا ہے، تم یورینیم کیوں افزودہ کر رہے ہو؟ ہمیں یقین ہے کہ تم نے بم بنا لیا تو ہمیں مارو گے۔‘‘
یہ سب کچھ اُن عالمی ’’نگہداروں‘‘ (Watch Dogs) کی موجودگی میں، اُن کی آنکھوں کے عین سامنے ہو رہا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد بلند بانگ دعووں کے ساتھ وجود میں آئے تھے۔ اس کے اہلکار آج بھی عالی شان بلند وبالا دفاتر کے آسودگی بخش کمروں میں بیٹھے ہیں۔ کوئی جھُرجھری لے کے اعلامیہ جاری کرتا ہے تو کسی ناتواں پرندے کے پَر کی طرح رِزق ہوا ہوجاتا ہے۔ کوئی نِیم جاں سی قرارداد منظور ہوتی ہے تو اُس کے سینے میں ویٹو کا خنجر گھونپ دیا جاتا ہے۔ کسی ادارے میں سکت نہیں کہ وہ اپنے مقاصد اور مینڈیٹ کو بروئے کار لاسکے۔ طاقت کا عفریت دندنا رہا ہے۔ تمام قانون، قاعدے اور ضابطے، کسی چارٹر نہیں، بندوق کی نالی سے پھوٹ رہے ہیں۔
اسرائیل کھولتے ہوئے آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اپنے چاروں مسلم ہمسایہ ممالک کو مفلوج ومطیع کرنے کے بعد اَب وہ نئے اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایران اس کے دِل میں کیکر کے لمبے کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ پاکستان کو بھی وہ بڑا دشمن خیال کرتا ہے۔ جن مسلم ممالک کو اسرائیل سے کچھ خوش فہمی ہے وہ سرابِ فکر ونظر کا شکار ہیں۔ سو اُن کے لئے پہلا سبق تو یہی ہے کہ وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرنا ہوگی۔ علّامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔‘‘ عصا ہوگا تو ہماری بات میں کوئی وزن بھی ہوگا اور ہم اپنی چار دیواری کو آوارگانِ دشت سے بچا بھی سکیں گے۔ عصا کو ایٹمی صلاحیت کے محدود معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ اس کی اَن گنت شکلیں ہیں۔ دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ عالمِ اسلام کو، کم ازکم، اسرائیل کے حوالے سے ایک واضح مشترکہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ایسی خود دار اور توانا حکمت عملی جو اُس کے وجود کا احساس دلا سکے۔ عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس تنظیم، قبروں پر لگے کتبوں کے سوا کچھ نہیں۔ اہم اسلامی ممالک کو ایک نئے عزم کے ساتھ انگڑائی لینا ہوگی۔ پیشتر اس کے کہ تل ابیب کے زہرناک آتشیں دہانے سے پھوٹتا لاوہ، ایک ایک کرکے ہر دروازے پہ دستک دے، اسلامی دنیا کو عالمِ غنودگی سے نکلنا ہوگا۔