• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم لوگ الحمدللہ، سبحان اللہ اور ماشااللہ کے علاوہ انشااللہ کا استعمال بھی بکثرت کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا چنانچہ ہم کسی کام کا ارادہ کریں تو اس کے اظہار سے پہلے انشااللہ ضرور کہتے ہیں مگر کثرت استعمال سے ہر چیز کا حلیہ بگڑ جاتا ہے جیسے ہمارے ہاں ہر شخص اور ہر جماعت موقع بہ موقع اسلام کا نام ضرور لیتی ہے حالانکہ نام لینے والے شخص اور جماعت میں اسلام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اس ضمن میں صورتحال اتنی ’’تشویشناک‘‘ ہو چکی ہے کہ دروغ برگر دن راوی ایک صاحب اپنے بیٹے محمد اسلام کےساتھ ٹرین میں سفرکر رہے تھے ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کا بیٹا کسی کام کیلئے اترا اور اس دوران ٹرین چل دی۔ باپ نے گھبراہٹ کے عالم میں کھڑکی میں سے منہ باہر نکالا اور حلق کی پوری قوت سے آواز لگائی ’’اسلام‘‘ پلیٹ فارم پر موجود ہزاروں لوگوں نے جواب میں پورے جذبہ ایمانی سے جواب دیا ’’زندہ باد‘‘ باپ نے جھنجھلا کر دوبارہ پوری قوت سے اپنے بیٹے کو پکارا ’’اسلام‘‘ لوگوں نے جواب میں پہلے سے زیادہ جوش وجذبہ سے ’’زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا اتنے میں ٹرین کہیں سے کہیں پہنچ گئی اور بے چارا اسلام جذباتی مسلمانوں کے ہجوم میں کہیں گم ہو کر رہ گیا۔ کیا عام زندگی میں بھی ہم لوگوں نے اسلام کے ساتھ کہیں یہی سلوک تو نہیں کیا۔

بات ذرا دور نکل گئی میں بتا رہا تھا کہ کثرت استعمال سے لفظوں کے مفہوم بھی بدل جاتے ہیں بلکہ بقول احمد ندیم قاسمی؎

پوچھ بیٹھا ہوں تجھی سے میں تیرے گھر کا پتہ

تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

ہم میں سے بہت سے لوگوں نے جب کوئی کام نہ کرنا ہو تو اس وقت انشااللہ بولتے ہیں تاکہ جب وہ کام نہ ہو تو سارا بوجھ اللہ تعالیٰ پر ڈال دیا جائے کہ اس کی مرضی نہیں تھی ورنہ میرا تو پکا ارادہ تھا۔ ظہیر کاشمیری مرحوم اور الطاف مشہدی مرحوم انار کلی کے ایک ریستوران کی بالائی منزل پر کھڑکی کے ساتھ بیٹھے ’’سرور‘‘ کے عالم میں ’’چائے‘‘ پی رہے تھے یہ زمانہ ظہیر کاشمیری کے الحاد کا زمانہ تھا الطاف مشہدی کا کہنا تھا کہ ’’پتہ بھی نہیں ہلتا بغیر اس کی رضا کے‘‘ جبکہ ظہیر کاشمیری کہہ رہے تھے کہ انسان اپنے ارادے اور عمل میں پوری طرح آزاد ہے چنانچہ میں اگر اس وقت مرنے کا ارادہ کروں تو مر سکتا ہوں الطاف مشہدی نے کہا ’’اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی تو تم مر جائو گے ورنہ نہیں مرو گے یہ سن کر ظہیر کاشمیری بولے ’’لو میں مرنے جا رہا ہوں اپنے اللہ تعالیٰ سے کہو روک سکتا ہے تو مجھے روک لے‘‘ اور یہ کہہ کر کھڑکی سے باہر بازار میں چھلانگ لگا دی نیچے دکان کا چھپر تھا پہلے چھپر پر گرے وہاں سے پھسل کر ایک سائیکل سوار پر جا گرے جس کی وجہ سے انہیں خراش تک نہ آئی چنانچہ کپڑے جھاڑتے ہوئے ریستوران کی بالائی منزل پر پہنچے اور الطاف مشہدی کو مخاطب کرکے کہا کامریڈ تم شائد صحیح کہتے ہو!

لیکن یہ تو ’’معصوم‘‘ لوگ تھے میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا نام اللہ تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں پاکستان کے گزشتہ برسوں میں ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور ’’انشااللہ ‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور ’’اناللہ ‘‘ پر ختم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کون سی جماعت ہے جس نے عوام کےساتھ کئے ہوئے وعدے پورے کئے ہوں اس میں کچھ قصور تو ان لوگوں کا ہے اور کچھ ان ہاتھوں کا جو ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق پردے کے پیچھے سے اپنا کام دکھاتے رہتے ہیں اور جب اس کے نتیجے میں حالات پوری طرح خراب ہو جاتے ہیں تو پھر سامنے آ کر سارا الزام سیاست دانوں پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ ان بے ننگ ونام سیاست دانوں کے گھر لٹنے کا ایک سبب یہ طعنہ دینے والے خود بھی ہوتے ہیں۔

بہرحال ان سب باتوں سے قطع نظر ’’انشاللہ ایک بہت خوبصورت اور بابرکت لفظ ہے یہ ادا کرنے سے دل کو تسلی سی رہتی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ انشااللہ کہنا پڑتا ہے مثلاً انشااللہ گاڑی صحیح وقت پر آئے گی، انشااللہ نلکے میں پانی آئے گا، انشااللہ دودھ میں پانی نہیں ہو گا اور اگر ہوا بھی تو انشااللہ جوہڑ کاپانی نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ ہم گزشتہ برس ہا برس سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، حالات پر کڑھتے رہتے ہیں، پانچ نمازوں کے ساتھ تہجد بھی شروع کر دیتے ہیں اور آسمان کی طرف ملتجانیہ نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ شائد حالات ایسے بدلیں گے حالات محض انشااللہ کہنے سے نہیں بدلیں گے حالات محض مصلے پر بیٹھ کر دعائیں مانگنے سے نہیں بدلیں گے حالات بدلنے کےلئے ہمیں ’’مصلیٰ جدوجہد‘‘ کے علاوہ کچھ اور بھی کرنا ہو گا جو دنیا کی قوموں نے اپنے حالات بدلنے کیلئے کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا کی۔ مجھے یقین ہے میری اس بات کے جواب میں ایک دفعہ پھر انشااللہ کہا جائے گا اس ’’انشااللہ‘‘ میں خود میں بھی شریک ہوں کیونکہ اب میری قوت عمل بھی خوابیدہ ہو چکی ہے چنانچہ میں صرف انشااللہ نہیں انشااللہ عظیم کہوں گا تاکہ قبولیت ذرا زیادہ وزنی ہو جائے!

تازہ ترین