جھیل کے وسط میں کھلے بوگن ویلیا کےآتشی گلابی پھولوں کا بے پناہ حسن پانی میں منعکس ہو رہا تھا شاید میں کچھ دیر اور کھوئی رہتی کہ خیال کی رو مجھے جنگ کے بھڑکتے شعلوں کی طرف لے گئی ۔ہم بے مہر زمانوں میں جینے والے لوگ ہر روز ایک نئے سانحے ،پہلے سے بڑے المیے کی خبر سنتے ہیں اور اب تو جنگیں ہمارے موبائل اسکرین کی مدد سے ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔یہ جون کی گرم سویر تھی جسکے تیور ہی بتا رہے تھے کہ سخت گرم اور حبس بھرا دن ہمیں گزارنا ہے۔ باغ میں درخت ساکت کھڑے تھے،پرندے کبھی کبھی فضا میں اڑان بھرتے،جھیل کے کنارے پر لگے بوگن ویلیا کی پھیلتی ہوئی جھاڑیاں گلابی پھولوں سے بھر رہی تھیں، گرم گھٹن بھرے دن میں یہ ایک منظر کیسا حسین تھا کہ اس پر کئی نظمیں لکھی جا سکتی ہیں۔
بوگن ویلیا فطری طور پر ایک دیوار کے سہارے سے لپٹتی بیل ہے مگر یہاں مصنوعی جھیل کے کنارے پر اس بیل کو اس طرح لگایا گیا ہے کہ ان کی کانٹ چھانٹ کر کے انہیں جھاڑیوں میں بدل دیا گیا ہے،زمین سے چند فٹ اوپر ان کی شاخیں ہاتھ پھیلائے ایک جھاڑ سا بنا دیتی ہیں اور اس موسم میں شاخوںکے ہاتھ پھولوں سے بھر جاتے ہیں سرد اوریخ بستہ موسم میں یہ جھاڑیاں کتھئی رنگ کے ٹنڈ منڈ جھاڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ جن پر کہیں کہیں سبز پتے دکھائی دیتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان گزرتا کہ صبر اور استقامت سے کہ ان موسموں کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کی شاخیں گلابی پھولوں سے بھر جائیں گی۔ جب تپتے دنوں میں لو چلتی ہے اور موسم شدید گرم ہوتا ہے ان کی شاخیں پھولوں سے بھر جاتی ہیں۔
میری نظرجھیل کے کنارے ایستادہ اکلوتے املتاس کے پیڑ پر گئی جس نے زرد پھولوں سے بھری شاخوں کو دائیں جانب جھکا رکھا تھا اور جھیل کے پانیوں پر زرد پھولوں کا عکس پڑرہا تھا ۔قدرت نے ہماری خوش نظری کیلئے کیا خوب اہتمام کر رکھا ہے۔ مگر دیکھنے والی نظر بھی تو ہو ۔ یہ مصنوعی جھیل باغ کے کینوس پر ایک حسین تصویر کی طرح شوخ رنگوں سے پینٹ کی گئی ہے ۔جھیل کے وسط میں ایک رنگین کشتی کھڑی ہے اس پر بوگن ویلیا کی ایک پھولوں سے بھری ہوئی بیل کا سایہ پڑ رہا ہے چند سیڑھیاں ہیں جھیل کے پانی پر اڑان بھرتے آبی پرندے ایک مکمل منظر نامہ ہے ۔زندگی کتنی خوبصورت ہے اس لمحے میں نے سوچا۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے اس خیال کے ساتھ ہی ایک پیراڈوکس میرے ذہن میں ابھرا کہ زندگی کتنی تلخ بھی تو ہے۔ یہاں المیے ،یہاں جنگیں ہیں ،یہاں بھوک ہے،یہاں غزہ کا لہو لہو وجود ہے،خیال کی رو مجھے غزہ کی اجڑی گلیوں میں لے گئی۔
گزشتہ کئی مہینوں سے اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی سے غزہ پر بارود کی بارش برساتا رہا کسی اہل اختیار طاقتور کو احساس نہیں ہوا۔
جنگی جنون میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ایران وہ واحد مسلمان ملک ہے جو سود و زیاں کے گوشوارے سے بالاتر ہو کر اپنے سے زیادہ طاقتوروں کو للکارنے کی جرات رکھتا ہے۔
اسرائیل کے پہلے حملے میں اگرچہ ایران کی قیادت کرتیں چھ قیمتی شخصیات شہید ہوئیں ۔ تجزیہ نگاروں کی فیکٹریوں نے تجزیہ اگلنا شروع کیا کہ ایران اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ ایران کے اندر اسرائیل کے ایجنٹ موجود ہیں اور یہ زاویہ ایران کی دفاعی اور عسکری کمزوری ظاہر کرتا ہے۔
ابھی تجزیہ کاروں کی فیکٹریاں تجزیے اگل رہی تھیں کہ ایران نے پے در پہ اسرائیل پر میزائلوں سے حملے کیے یہ ہائپر سونک میزائلوں کے وہ حملے تھے جس نے اسرائیل کے آئرن ڈوم میں نصب دنیا کے حساس ترین دفاعی میکنزم کو ادھ موا کردیا۔ ایران کے حملوں نے اسرائیل کو بلبلانے پر مجبور کر دیا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ جنہوں نے لمحہ لمحہ غزہ پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کو اپنی روح پر محسوس کیا۔غزہ کےبھوک سے نڈھال بچوں پر بارود کے حملے کرتے اسرائیل سے نفرت کی ، اب اسرائیل کی تباہی کے مناظر دیکھ کر تسلی اطمینان محسوس کیا کہ روئے زمین کا بدترین ظالم اس سے زیادہ کا سزاوار ہے۔
ایران کو اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی جرات ایمانی سے نوازا ہے جس نے فلسطین کے مظلوموں کا کچھ تو بدلہ چکایا یقیناً اس ظلم اور بربریت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ اسرائیلیوں کے گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔اس کے باوجود غزہ پر اسرائیل کے ظلم میں کوئی وقفہ نہیں آرہا اس کے جواب میں قدرت نے ایرانی میزائلوں کو اسرائیل پر مسلط کیا یہ ذائقہ چکھنا ان ظالموں کے لیے ضروری ہے جنہوں نے اپنے مذہبی نصاب میں پڑھ رکھا ہے کہ مسلمانوں کے وجود سے دنیا کو پاک کرنا مقدس کام ہے۔
امن کے نام پر قائم کیے ہوئے عالمی ادارے بھی دنیا کے انہی طاقت وروں کےساتھ ہیں جو آتشی اسلحے کے سوداگر ہیں اور جنہیں اس اسلحے کی کھپت کے لیے پراکسی جنگوں کی ضرورت رہتی ہے اور کمزور ملکوں کی زمینیں ان کا ہدف ہیں ۔ان جنگوں میں کمزور ملکوں کے مرنے والے لوگ ان کے نزدیک محض جنگوں کا کولیٹرل ڈیمج ہیں۔ جب گرتے ہیں عمل کے طور پر میزائل ان کی سرزمینوں پر تو ان کی جیب میں پڑے ہوئے عالمی ادارے بھی حرکت میں آجاتے ہیں 21 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اس کی مثال ہے جس میں ایران اسرائیل فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے
جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جنگ کے شعلے ابھی ٹھنڈے نہیں پڑے ۔غزہ کے جنگ دریدہ زخم خودہ بچوں پر اسرائیلی میزائل ابھی برس رہے ہیں اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کا جتن کون کرے گا کہ طاقت وروں کے دل صرف اپنے زخم پر پگھلتے ہیں۔