جنگ یا محبت میں جہاں سب جائز کہا جاتا ہے وہاں دونوں مدد کے متلاشی بھی ہوتے ہیں، مدد میں بھی یہ کہ کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں۔ بہرحال جنگ بندی کی اپنی ضرورتیں اور نزاکتیں ہوا کرتی ہیں اسے بھی اپنا راستہ دریافت کرنا پڑتا ہے۔ جنگ کا کھلنا اور جنگ کا بند ہونا انسانی تاریخ کے ساتھ پیدا ہوا اور انسانی تاریخ کے سنگ ہی رہے گا۔ جنگ جتنی بھی ضروری اور مجبوری ہو لیکن اس کا رکنا ضرورتوں و مجبوریوں سے زیادہ مقدم ہے۔ ایک طرف مبصرین کہتے ہیں کہ جنگ جغرافیہ جیتا کرتی ہے،دوسری طرف کہنا ہے کہ امن لوگوں کے دل جیتتا ہے! لیکن اس موقف کا کیا کریں کہ’’جنگ امن کیلئے ہوتی ہے۔‘‘جنگ کے احکامات ہمیشہ بوڑھوں کی طرف سے آتے ہیں اور مرتے جوان ہیں۔ جنگ نفسیاتی مسئلہ ہے تاہم امن حب الوطنی کی جنگ ہے!
ہر جنگ ختم ہونے کے بعد ٹیبل پر آتی ہے جلدی آئے یا دیر لگے، آتش و آہن کی بارش کبھی حتمی فیصلہ نہیں کرتی ، فتح یا شکست کے بعد بھی چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں، عموماً پھر حتمی فیصلہ ٹیبل ٹاک ہی پر ہوتا ہے، کہ کسی بڑی بیماری سے بھی ریجن میں اتنے معذور اور لاچار نہیں ہوتے کہ جتنے جنگ سے۔ جنگ کمیونٹی اور خاندانوں کی تباہی ہے جس سے سوشل ڈیویلپمنٹ اور اکانومی کے بھی پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ آخر امن کے راستے تلاش کرناپڑتے ہیں۔ جنگی جنون کوراستے نہیں ملتے تو کوئی طاقتور بیچ میں آتا ہے جس سے فریقین ڈرتے ہوں یا ممنون ہوں، اور بعض اوقات عالمی برادری آگے بڑھ کر سیز فائر کے مقام پر لاتی ہے۔ یوکرین روس کی جنگ بندی کا سِرا نہیں مل رہا اور تباہ کاریاں ہنوز کسی طاقتور سے رکیں نہ برادری سے۔ مئی 2025 کے دوسرے ہفتہ میں شروع ہونے والی پاک بھارت جنگ بہرحال امریکی مداخلت اور’’ٹرمپ مہربانی‘‘سے سیز فائر کی جانب چلی گئی۔ یوکرین،روس میں روس جوہری توانائی کا حامل ہے یوکرین نہیں جبکہ پاک بھارت میں دونوں حامل ہیں، علاوہ بریں پاکستان کے سنگ ایک مضبوط خارجی مدد چائنہ اور اخلاقی مدد ترکی سمیت کئی بااثر ممالک کی تھی۔ پس یہ ثابت ہوا بندوق دونوں جانب طاقتور ہو تو توازن بھی جنگوں کو روکنے اور امن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے ورنہ بھارتی ذہنیت سے زمانہ واقف ہے۔ تبھی اس کی سفارتی محاذ پر شرمناک شکست ہوئی۔ اس جنگ کے بعد جو پاکستان کا سفارتی وفد امریکہ و برطانیہ سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی قیادت میں گیا اس نے دلیل، ڈائیلاگ اور اعتماد سے سفارتی میدان میں بھارتی وفد کو شکست دی ، بھارتی وفدانہی دنوںششی تھرور جیسے سینئر ڈپلومیٹ اور سیاستدان کی قیادت میں امریکہ و برطانیہ سمیت کئی ممالک کے دورےپر پوسٹ وار سفارتی محاذ پر نکلا۔ گویا جنگیں ٹیکنالوجی اور کنونشنل محاذوں ہی پر نہیں اکانومی ، سائیکالوجی اور سفارتی میدانوں میں بھی لڑنا پڑتی ہیں۔
حالیہ ایران اسرائیل جنگ کی وار سائنس اور تاریخ کو سمجھنا ہوگا ، ذہن نشین رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بارڈر سے بارڈر تک کا فاصلہ 11 سو کلومیٹر ہے، دارالحکومت تہران اور یروشلم کا فاصلہ تقریباً 17 سو 70 کلومیٹر ہے۔گویا سرحدی فاصلہ لاہور کراچی سے کم ہے اور تہران یروشلم فاصلہ لاہور تا کراچی جتنا۔ اسرائیل کو دیکھیں تو اسرائیل کے مغرب میں بحیرہ روم ہے اور مشرق میں اردن۔ شمال میں لبنان اور شمال مشرق میں سوریہ، جنوب مغرب میں مصر موجود ہے...حد یہ کہ اسرائیل کی چھوٹی موٹی گستاخیاں امریکہ بھی برداشت کرتا ہے کیونکہ ازخود امریکہ کو جس چیز کا معلوم نہ ہو کہ فلاں اسلحہ کس حالت میںہے وہ اسرائیل کو معلوم ہوتا ہے۔ اسرائیل انویسٹمنٹ، جاسوسی اور یہودی پنجہ خود امریکی انفراسٹرکچر کے اندر بہت گہرا دھنس چکا جو امریکہ اسے لاڈلا رکھتا ہےلیکن عراق ہو یا ایران یا افغانستان اس پر امریکہ چڑھ دوڑتا ہے!
حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں کچھ تاریخ ساز معاملات سامنے آئے ہیں پاکستان اور امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ آرمی کے سربراہ کو امریکی صدر نے نہ صرف اسپیشل کھانے پر وائٹ ہاؤس بلایا بلکہ کیبنٹ کے لوگوں نے بھی ملاقات کی ، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کو اعزاز قرار دیا... پاکستان کو دو قابلِ ذکر و قابلِ ستائش کامیابیاں یکے بعد دیگرے میسر آئیں۔ پہلے بلاول بھٹو نے سفارتی مشن میں ماہر ہونے کا ثبوت دیا اور سفارتی مہم سر کی اور فوری اس فاؤنڈیشن پر جو عمارت سپہ سالار نے سینچی اسکی انفرادیت کہ یہ عسکری کم سفارتکارانہ جلوہ تھا۔ گو سپہ سالاربنیادی طور پر کوئی حکومتی و جمہوری نہ تھے مگر قابلِ تحسین یہ کہ وہ بیک وقت حکومت، ریاست اور عسکریت کا اعتماد اور چہرہ تھے۔ اور صدر ٹرمپ نے مناسب سمجھا کہ پاکستانی گفت و شنید کے علاوہ ایران اسرائیل جنگ پر فیلڈ مارشل سے نوٹس شیئر کرلئے جائیں ، واضح رہے کہ کچھ روز قبل سپہ سالار وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ساتھ ایرانی دورہ کر چکے ہیں۔بہرکیف یہ ملاقات خدشات کے سنگ سنگ امید کی کرن بھی لگی کہ صدر ٹرمپ ایرانی استقامت سمجھنے کے بعد امن اور جنگ بندی کے راستے کی تلاش میں ہیں۔ یہ بھی ذہن میں آتا ہےکہ بلیک میلر اسرائیل کو ساتھ رکھتے ہوئے ٹرمپ کوئی ٹرمپ کارڈ بھی کھیلنا چاہتے ہیں کہ مشرق و مغرب امریکہ سے خوش ہو ، اس امریکہ سے جس نے جاپان پر بم ضرور برسایا مگر دور کی جنگوں میں کبھی کامران نہیں ٹھہرا۔ بہرحال اسرائیل مافیا کو 1933 میں فلسطین نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی ورنہ 1080ء اور 17/ 1113ء میں فرانس سے 1171 اٹلی سے، 1299 میں تیسری دفعہ برطانیہ اور 1360 ہنگری سے گویا اس کے بعد مسلسل سوئٹزرلینڈ، جرمنی پرتگال،لتھوانیا، پولینڈ اور اسپین سے یہ مافیا نکالا جاتا رہا۔ قصہ مختصر، 1113 سے 1933 تک کئی ملکوں سے بار بار نکالا جاتا رہا۔ جہاں پناہ ملی وہیں وہ اژدھا بن گیا جس کا سر کچلنا بنتا تھا، لیکن یہ امت مسلمہ کی ناکامی کی داستان لکھتا رہا۔ نہیں معلوم آگے کیا ہو، لیکن امید ہے سپہ سالار نے صدر ٹرمپ کو بتا دیا ہو گا کہ ایران کمزور نہیں تاہم اسرائیل سانپ ہے۔ کچھ نہیں، تو سرِدست امن سے محبت اور جنگ سے دوری کو فوقیت بخشی جائے!