پنجاب کی سرسبز، دیالو اور پریمی سرزمین کی شادابی سے بیر رکھنے والی آکاس بیل سوچ صدیوں سے اس پر وقتاً فوقتاً حملہ آور ہوتی رہی ہے، وارثانِ پنجاب کی بے توجہی کے باعث اسے پھیلنے کا خوب موقع ملتا رہا ہے۔ مٹی کی طاقت اگرچہ اسے نیست و نابود کر دیتی ہے مگر اس سے پہلے یہ اچھا خاصا نقصان کر چکی ہوتی ہے۔ اسی آکاس بیل سوچ کے آج کل پھر حملہ آور ہونے کے باعث پنجاب کے وجود پر لگے پرانے زخم فضا میں سسکیاں بنکر اْبھرنے لگے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کا سب سے مکروہ ?دردناک اور سازش سے لبریز پہلو خوشی سے جھومتے اور نعمتیں بانٹتے کماؤ پنجاب کی بے رحمانہ تقسیم ہے۔ وہ پنجاب جو برصغیر کےدل کی دھڑکن تھا، جسکی فطرت میں دریا دلی اور جانثاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جسکا مزاج صوفیانہ رنگ میں رنگا ہوا تھا، جسکی زمین سونا اگلنے والی اور باسی امن اور فن کے دلدادہ تھے، جس نے صدیوں سے مختلف مذاہب، اقوام اور تہذیبوں کو اپنے دامن میں پناہ دینے اور پالنے کو وطیرہ بنائے رکھا۔ ان میں سے کچھ بِچھو فطرت اسے اذیت دیتے رہے، مگر اسکے وسیع ظرف نے کسی کو ’دیس نکالے‘ کا حکم صادر کرنا گوارا نہ کیا۔ 1947ء میں پہلے اسکی وحدت پر آرا چلا کر اسکی روح کو لہو لہان کیا گیا اور پھر وجود کو۔ پون صدی پیشتر پنجاب کی تقسیم محض وقتی فیصلہ نہیں بلکہ گہری سازشیں کرنیوالوں کا مکروہ منصوبہ تھا جنھوں نے زمین بانٹنے کے نام پر صوفیانہ رویوں، ثقافتی قدروں اور انسانی محبتوں کا بے دردی سے قتل عام کرکے نفرت اور دشمنی کی تخم ریزی کی۔ انگریز کی "Divide and Rule" پالیسی کا آخری وار پنجاب کی تقسیم تھا۔ تقسیم کے بعد کی خوں ریزی انسانی تاریخ کی بدترین مثال بن گئی۔ بیس لاکھ لوگ قتل، کروڑوں بے گھر ہوئے جن کا دکھ رہتی دنیا تک پنجابیوں کی روحوں میں سرایت کر گیا۔ مسلمانوں ،ہندوئوں اور سکھوں کا ملکر بنایا ہوا بھائی چارے کا مثالی معاشرتی ڈھانچہ مسمار ہوگیا، قیامِ پاکستان کے بعد بھی پنجاب پر یلغار کم نہ ہوسکی۔ پنجاب نہ صرف آبادی بلکہ سیاسی، انتظامی اور معاشی اعتبار سے مرکزی اور طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔ اسلئے زبان و کلچر سے محروم کر کے شناخت کو مجروح کرنے کی روش اپنائی گئی۔ جب سے مسلم لیگ ن پنجاب میں اکثریتی جماعت بنی ہے پنجاب کی تقسیم کا واویلا بڑھ گیا ہے۔ پہلے صرف پیپلز پارٹی اس گیم کا حصہ تھی اب تحریک انصاف بھی شامل ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کا سیاسی دائرہ محدود کرنے کیلئے پنجاب کو تقسیم کرنے کے خواب دیکھنے والے سیاسی میدان میں اچھے کام کرکے بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رائے حاصل کر سکتے ہیں۔ تقسیم پنجاب کے نعروں میں بظاہر جنوبی پنجاب کی پسماندگی کو جواز بنانیوالوں کو جب بھی موقع ملا یہ کسی زیرک سیاستدان کی بجائے سیاسی فہم و فراست اور انتظامی معاملات سے بالکل عاری شخص عثمان بزدار جیسے شخص کو ہی وزیراعلیٰ بنائینگے۔ یاد آیا بزدار دور کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کیلئے 75فیصد رقم جنوبی پنجاب کیلئے مختص کی گئی تھی جو کسی عملی منصوبے میں نظر نہیں آئی شاید نظر نہ آنیوالی مخلوق کی فلاح پر خرچ ہوئی ہو۔بہت قابل احترام صدر پاکستان آصف علی زرداری کے پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے بیان پر پنجابیوں کو شدید تشویش ہے۔ سندھ نے اپنی زبان اور ثقافت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے لیکن وہاں کی کسی حکومت نے سرائیکی کو رائج نہیں کیا لیکن اسکے ذریعے پنجاب کی وحدت پر وار کرنیکا سلسلہ شروع کر رکھاہے۔ ہرسال اسلام آباد میں ہونیوالا مادری زبانوں کا سندھ اسپانسرزڈ میلہ بھی پنجابی زبان کی مخالفت کا عکاس بنتا جا رہا ہے۔ پنجاب کے واحد پنجابی ادارے پلاک کے پروگراموں میں اکثر پنجابی کی بجائے ماں بولی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بارہا اسے پنجابی زبان کے ادارے کی بجائے پنجاب کی زبانوں کا ادارہ بنانے کی کوشش بھی ہوتی رہتی ہے جو بہت تشویشناک ہے۔ پنجابی اور سرائیکی الگ نہیں، لاہور قصور کے صوفی شاعر شاہ حسین اور بلھے شاہ نے مرکزی پنجابی زبان استعمال کی جس میں سرائیکی رنگ نمایاں ہے، ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی وراثت کے امین صوبہ پنجاب کی تقسیم کا پروپیگنڈا دراصل قوم کو جذباتی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سیاسی چال ہے عوامی مطالبہ نہیں۔ ضروری ہے کہ پنجاب کے باشعور رہنما، دانشور اور سول سوسائٹی پنجاب جیسے تاریخی ورثے کو مزید تقسیم کرنے کی کوششوں کا علم و دلیل سے مقابلہ کرکے ناکام بنائیں۔