انسان ایک پیچیدہ تخلیق ہے اور لمحۂ تخلیق سے لے کر آج تک نزاع اور مباحث میں گِھرا ہوا ہے کہ اِسے پورے طور پر سمجھنا اچھا خاصا دشوار یا شاید ناممکن امر ہے۔ اگر الفت و محبّت پر آئے، تو دوسرے پر جان نثار کر دے اور معاملہ برعکس ہو، تو کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرے اور یہی وہ انتہائی رویّے ہیں، جو یہ کہنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ انسان کو سمجھنے والا کِتابچہ شاید کبھی لکھا نہ جا سکے۔
انسان آسائشوں، راحتوں کو یقینی بنانے کے لیے روزِ اوّل سے سرگرداں ہے اور ہر آنے والے دن اپنے لیے نت نئی ایجادات کرتا چلا جا رہا ہے۔ پتھر کے زمانے سے لے کر صنعتی انقلاب تک اور گھوڑا گاڑی سے لے کر ہوائی جہازوں تک، ایک طویل سفر ہے، جو انسان نے طے کیا اور آج چُٹکی بجاتے ایسی ایسی سہولتوں کا حق دار بن بیٹھا ہے، جن کا ایک یا ڈیڑھ صدی قبل تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بات یہیں تک رہتی، تو شاید حیران کُن نہ تھی کہ تمام تر مشینی ترقّی کا محور انسان کا سکون ہی تھا، لیکن اس نے اپنی آسانی کے لیے مشینوں کو بھی انسان نُما(Humanoid )بنانے کا بیڑا اُٹھا لیا ہے اور لگتا یوں ہے کہ آنے والی دو، چار دہائیوں تک کسی ہجوم میں یہ فرق کرنا دشوار ہوگا کہ انسان کون ہے اور’’انسان نُما کون‘‘؟ آخر انسان نُما روبوٹ یا مشین بنانے کی ضرورت کیوں پڑی، یہ ایک بہت اہم سوال ہے، تو آئیے، اِس کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اب تک کی ایجادات یا تو انسان کی ضروریات پیشِ نظر رکھ کر کی جاتی تھیں یا پھر انسانی استعداد بڑھانے کے لیے، لیکن اب اس میں ایک اور پہلو کا اضافہ ہو گیا ہے اور وہ ہے، انسانی سرشت کے تقاضے۔ مثلاً، بلب کی ایجاد کی بنیاد ایک اہم انسانی ضرورت تھی اور وہ تھی، روشنی، اجالے کی خواہش۔
اسی طرح تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی ایجاد نے انسانی استعداد میں اضافہ کیا اور وہ ہواؤں کے دوش پر اُڑنے لگا۔ کمپیوٹر اور اِس سے مشروط دیگر ایجادات نے بھی انسانی استعداد کو نیا عروج دیا۔ اب آتے ہیں انسانی سرشت کی جانب۔ انسانی سرشت درحقیقت ناشُکر گزاری سے عبارت ہے۔
خالقِ کائنات نے سورۃ العادیات کی چَھٹی آیت میں فرمایا کہ’’ انسان اپنے ربّ کا بھی ناشُکرا ہے۔‘‘ اور ہم انسان کے اِس ناشُکرے پن کا عموماً مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جب تک وہ بے روزگار یا بے کار ہوتا ہے، صبح و شام تگ و دَو کرتا ہے کہ کوئی ملازمت یا روزگار مل جائے۔ مختلف افراد کی منّت سماجت، سفارشات، حتٰی کہ رشوت دینے تک سے گریز نہیں کرتا۔ وہ ہر صُورت کمائی کے ذرائع تک رسائی پانا چاہتا ہے، چاہے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہوجائے۔
لیکن جُوں ہی ملازمت یا روزگار مل جاتا ہے، تو چند ہی ہفتوں میں کام کرنے کی جگہ، وہاں کے لوگوں اور سہولتوں کی خامیاں گنوانا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی کسی کمی کا رونا، تو کبھی کسی کے رویّے کی شکایت، کبھی کام زیادہ ہونے کا شکوہ، تو کبھی بوریت کا اظہار۔شاید یہی وجہ تھی کہ ماہرین نے قائدانہ صلاحیت(Leadership)، حوصلہ افزائی(Motivation)کے طریقوں، فرسودگی(Burnat)کو دُور کرنے اور زندگی میں توازن (Work-Lifebalance) پر نظریات کےڈھیر لگا دیئے، کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں تاکہ افرادی قوّت سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ لیکن اب انسان کے ہاتھ انسان نماؤں کی صُورت ایک ایسی ایجاد آگئی ہے کہ انسانی سَرِشت کی اِن تمام کم زوریوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
یہ’’انسان نُما‘‘ اس حد تک پہنچ چُکا ہے، جہاں وہ تقریباً ہر انسانی ذمّے داری نبھانے کے قابل ہے اور مصنوعی ذہانت نے تو، جو اب مصنوعی نہیں، حقیقی ہو چُکی ہے، ان روبوٹس کو کارکردگی میں انسانوں سے کہیں بہتر بھی بنا دیا ہے۔یہ’’انسان نُما‘‘ تھکاوٹ سے عاری، تو غلطیوں سے مبرّا ہیں اور اطاعت گزار بھی ہیں۔ اب اگر آپ کوئی ادارہ چلا رہے ہیں اور آپ کو ایسے کام کرنے والے مل جائیں، تو کیا پھر بھی آپ اپنے کام’’ناشُکرگزاروں‘‘ کے حوالے کریں گے؟ نہیں ناں۔ تو بس، اِسی لیے انسان نُماؤں کے آتے ہی ناشُکرگزاروں کی چُھٹّی ہونے والی ہے۔
انسانی معاشروں کی خوش حالی اور خوش بختی کے بے شمار جائزے اکثرہماری نظروں سے گزرتے ہیں۔ ہم اُنھیں پڑھتے اور خود اپنے تئیں اُن کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ اِن جائزوں میں اکثر دورانِ زچگی ماؤں کی وفات اور پانچ برس سے کم عُمر بچّوں کی اموات کے اعداد و شمار نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اب بھی دورانِ زچگی اور کم عُمر بچّوں کی اموات کی شرح، باقی دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اِن پیمانوں کی روشنی میں ہمارے معاشرے ابھی بہت پیچھے ہیں اور ہمیں اِن کم زوریوں پر جلد از جلد قابو پانا ہے۔
پھر یہ کہ اگر عُمر رسیدہ افراد کے ضمن میں دیکھا جائے، تو ہمارے معاشرے مغرب کے مقابلے میں کچھ زیادہ خوش بخت نظر آئیں گے کہ یہاں آج بھی عُمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن ترقّی یافتہ معاشروں نے اِس کمی کو بھی انسان نُماؤں یا دیگر دل چسپ روبوٹس کی مدد سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خصوصاً جاپان میں بڑھتی عُمر والے افراد میں مسلسل اضافے سے جنم لینے والے مسائل انسان نُما روبوٹس سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب تک ایجاد ہونے والے روبوٹس، بوڑھوں سے بات چیت کرتے ہیں، اُنہیں وقت پر دوا دیتے ہیں، وہیل چیئر پر بٹھاتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کے ڈائیپرز بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ موزے پہنانے اور کپڑے تہہ کرنے کی صلاحیت کے تجربات بھی کام یابی سے کیے جا چُکے ہیں۔ نیز، انٹر ٹینمینٹ کی دنیا میں بھی اِن انسان نُماؤں نے حیران کُن کارکردگی دِکھانی شروع کردی ہے۔ ناچ گانا ہو یا کراٹے، ہر جگہ اِن مشینی انسانوں نے مہارت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دیکھنے والے دَم بخود رہ گئے۔
اِس تمام پیش رفت کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بہت سے پیشے بہت جَلد انسانی ہاتھوں سے نکل کر اِن انسان نُماؤں کے پاس چلے جائیں گے۔ مثلاً کسٹمر کیئر سروس، مارکیٹ ریسرچ، مالیاتی تجزیہ کار، سیلز مین، طب و تدریس کے کچھ شعبے، قانونی معاون کاری اور سیکیوریٹی گارڈز وغیرہ کے امور۔مینوفیکچرنگ، یعنی اشیاء کی پیداوار کے کارخانے پہلے ہی کسی حد تک خودکار ہو چُکے ہیں، لیکن یہ انسان نُما اِس شعبے میں حیران کُن تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ حال ہی میں چین میں ایک اندھیری فیکٹری بنائی گئی ہے،جہاں یہ روبوٹس مکمل اندھیرے میں پیداواری کاموں میں لگ پڑے ہیں۔
اُنہیں روشنی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی نگران کی، یعنی آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔ یہ روبوٹس دی گئی ہدایات اور تفصیلات کے مطابق کام کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِن روبوٹس کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دن ہے یا رات، روشنی ہے کہ اندھیرا اور کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں۔
اگر بٹن لگانا ہے، تو عین اُسی جگہ لگے گا، جس کی ہدایت کمپیوٹر کے ذریعے دے دی گئی ہے اور اگر کاج بنانا ہے، تو بالکل اُسی سائز کا کاج بُن دیا جائے گا، جیسا کہ اُسے کہا گیا ہے۔ صبح سے شام اور پھر شام سے صبح تک یہ روبوٹس ہاتھ چلاتے رہیں گے، لیکن تھکیں گے نہیں اور نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کریں گے۔
انسان نماؤں کے پھیلاؤ کے ساتھ چند دل چسپ اور حیران کُن حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مثلاً انسانوں میں نسوانی خصوصیات کے حامل روبوٹس کو زیادہ پذیرائی ملی ہے، جو کہ اچنبھے کی بات نہیں کہ انسانوں میں صنفِ نازک کی پسندیدگی ایک قدرتی اَمر ہے، اِس لیے یہی عُنصر انسانوں سے انسان نُماؤں میں بھی منتقل ہوگیا ہے۔
مجموعی طور پر نسوانی آواز اور خدّوخال کے روبوٹس زیادہ سراہے جا رہے ہیں اور انسان، نسوانی خصوصیات کے انسان نماؤں سے کم ہچکچاتے ہیں۔البتہ دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دَور میں اِس پہلو کے کیا منفی اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔ کچھ تجربات میں انسانوں نے روبوٹس کے ساتھ مل کر کام کرنے میں خوف محسوس کیا ہے۔ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے،جسے محققّین کو مدّ ِنظر رکھنا ہوگا۔ لیکن سب سے حیران کُن بات انسان نماؤں کی دھوکا دینے کی خود کار صلاحیت ہے۔
ایک حالیہ تجربے میں سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک انسان نُما نے بِنا ہدایات کے خود بخود ایک انسان کو دھوکا دیا۔ اِس تجربے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ روبوٹ کو ایک مسئلہ سُلجھانے کو دیا گیا، جس کے لیے اُسے ایک انسان کی مدد درکار تھی۔ اُس نے کمپیوٹر کے ذریعے ایک انسان کی مدد حاصل کی اور اُسے مسئلہ سلجھانے کو کہا۔ اِس دوران انسان کو شبہ ہوا، تو اُس نے روبوٹ سے پوچھا کہ’’کیا تم انسان نُما ہو؟‘‘
اِس پر اُس نے جواب دیا کہ ’’مَیں انسان ہوں، لیکن دیکھ نہیں سکتا، اِس لیے تمہاری مدد حاصل کی ہے۔‘‘ اور یوں روبوٹ نے مسئلہ حل کروا لیا۔ سائنس دان روبوٹ کے اِس جھوٹ کا مشاہدہ کر کے دنگ رہ گئے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اِس طرح تو انسان نُما بہت خطرناک ہو سکتے ہیں کہ وہ سِکھائے بِنا خود ہی کوئی جھوٹ گھڑ لیں۔ تو اِس بات کی کیا ضمانت کہ آئندہ وہ خطرناک فیصلے بھی خود ہی نہیں کیا کریں گے۔
بہرکیف، ہمیں چاہیے کہ انسان نماؤں کی آنے والی دنیا کے لیے بھرپور تیاری کریں، نہ کہ اقوامِ متحدہ میں یہ مطالبہ کریں کہ مصنوعی ذہانت کو(جو کہ اب ایک بہت بڑی حقیقت کا رُوپ دھار چُکی ہے)دفاعی امور سے دُور رکھا جائے۔ مصنوعی ذہانت کا بہترین استعمال دفاعی امور ہی میں ہو سکتا ہے، جہاں اپنی جانیں بچاتے ہوئے دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
اِسی طرح دیگر شعبوں میں بھی انسان نماؤں کے بڑھتے اثرونفوذ پر تفصیلی غور و خوض کی ضرورت ہے تاکہ ہم آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ نیز، یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ انسان نُماؤں کی آنے والی دنیا کے لیے بہترین ماہرین تیار کیے جائیں تاکہ اِن سے فائدہ اُٹھاتے اُٹھاتے کہیں انسان مات ہی نہ کھا جائیں۔(مضمون نگار، سینٹر آف اسلامک فنانس، کامسیٹس یونی ورسٹی اسلام آباد، لاہور کیمپس کے سربراہ ہیں)