وہ بارہ اور تیرہ جون کی درمیانی شب تھی جب ایران ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کا ہدف بنا۔ یہ حملہ اکتوبر 2024ء کے حملے کے مقابلے میں بہت شدید تھا۔ مجھے وہ رات بھی اچھی طرح یاد ہے اب اس تازہ حملے کے بعد بھی ایران اور پاکستان سے احباب کے ٹیلیفونی پیغامات کا تانتا بندھ گیا ۔جمعے کو تہران میں ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے اسلئے سڑکوں پر ٹریفک اور بازاروں میں رونق کم ہوتی ہے ۔ہم اس روزبھی حسب ِمعمول سفارتخانہ پاکستان گئے یہاں احباب سے ہفتہ وار ملاقاتیں ہوئیں ۔اسرائیلی حملہ ایک خبرتو تھی لیکن پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ ہمارے گھر سے سفارتخانے کا سفر اتنا ہے کہ اس دوران میں ہم شہر کا بڑا حصہ دیکھ لیتے ہیں، واپسی پر ہم نے تہران کے بڑے اسٹورز سے خریداری کی اور گھر آگئے۔ اگلے دن عید غدیر تھی، تہران میں اس مناسبت سے ایک بہت بڑا جلوس نکلا۔ ایرانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اور سائنسدانوں کی شہادتوں کے باوجود ایران نے نہ صرف اسی روز نئی قیادت کا تقرر کر دیا بلکہ اسی روز اسرائیلی جارحیت کا دندان شکن جواب بھی دے ڈالا تھا اسلئے عید غدیر کا جلوس فخر و مسرت کا جلوس بن گیا اور لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے اسرائیلی جارحیت کیخلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور بڑے پیمانے پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ٹیلیویژن پر جب یہ مظاہر دکھائے جارہے تھے تو میں حیران ہو رہا تھا کہ انسانوں کے سمندر جیسا یہ جلوس مسجد اقصیٰ کے گردا گرد پھیلا ہوا ہے اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ میدانِ انقلاب ہے؟ میرے لئے یہ منظر باعث تعجب تھا کہ میں تو تہران یونیورسٹی جاتے ہوئے ہر بار میدان انقلاب ہی پر اترتا ہوں وہاں تو مسجداقصیٰ یا اس جیسی کسی عمارت کا کوئی نشان تک نہیں پھر یہ جلوس کیسے مسجد اقصیٰ کے گرد اکٹھا ہو گیا ہے؟ یہ معمہ حل نہ ہوتا اگر اگلے دن میں ایک بار پھرخیابان انقلاب جاکر بارہا دیکھے ہوئے میدان انقلاب کو نہ دیکھتا۔ اگلے دن جاکر کیا دیکھتا ہوں کہ میدان انقلاب جسکے درمیان میں شیشے کا سا ایک ابھار تھا غائب ہے اور اسکی جگہ مسجد اقصیٰ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اصل مسجد تو نہیں اسکا ماڈل ہے لیکن اتنا مکمل کہ ٹیلیویژن پر دیکھتے ہوئے اس پر بالکل مسجد اقصیٰ ہی کا گمان ہو رہا تھا۔ جن لوگوں نے مسجد اقصیٰ نہیں دیکھی ان کیلئے تویہ ماڈل اصل مسجد کے برابر دکھائی دے رہا تھا۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ عالمی یا علاقائی سطح پر رونما ہونیوالے حوادث کے حوالے سے تہران میں بڑے پیمانے پر فوراً ہی ایسی تبلیغات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ فارسی میں تبلیغات سے تشہیری مہم مرا دلی جاتی ہے ۔
یوں تو اسرائیلی حملے کے مناظر ہمارے گھر کی بالکونی سے بھی بہ آسانی دیکھے جارہے تھے لیکن اتوار کو تہران میں متعین ترک سفیر سے پہلے سے طے شدہ ملاقات کیلئے جب میں روانہ ہوا تو تہران کی ’’پالائش گاہ نفت‘‘ سے ابھی تک دھواںاٹھ رہا تھا جس پر گزشتہ شب ہونیوالے حملے کے نتیجے میں آگ لگ گئی تھی۔ میں ترک سفارتخانے سے نکل کر ابھی میدان استنبول تک ہی پہنچا تھا کہ ایک بار پھر اسرائیلی حملہ ہوگیا۔ حملہ خاصا شدید تھا لیکن جتنی شدت حملے میں تھی ویسا ہی جوش و جذبہ لوگوں میں تھا ۔دن کا وقت تھا، بازار بھرے ہوئے تھے اور سڑک پر خوب رونق تھی، حملہ ہوتے ہی ٹریفک تھم گیا اور سب لوگ اپنا اپنا کاروبار چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے اور آسمان پر میزائلوں کی لڑائی دیکھنے لگے۔ بہت سے شوقین ویڈیو بنانے میں مصروف ہوگئے، جب یہ معرکہ ختم ہوا تو سب نے اپنی اپنی راہ لی۔ میں بھی آگے بڑھا اور میدان فردوسی کی جانب جانے لگا۔ اس روز خاصی گرمی تھی درجہ حرارت پینتالیس کے قریب تھا۔ میں بازاروں سے گزرتا لوگوں کے رویوں کو دیکھتاہوا آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں میدان فردوسی پہنچ گیا۔ میدان فردوسی(یعنی فردوسی اسکوائر) تہران کے مصروف ترین چوراہوں میں سے ہے، جہاں شاہنامے کا خالق بڑی شان سے فرغل پہنے، گلے میں مفلر لٹکائے، سر پر پگڑی باندھے ،بائیں ہاتھ میں ایک ضخیم کتاب تھامے کھڑا ہے۔ اسکے قدموں میں اسکے رزمیہ کا لافانی کردار رستم ایک معصوم بچے کی صورت میں بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ میدانِ فردوسی تہران کے قلب میں واقع ہے ۔ یہ جہاں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے وہاں تہران کاایک بڑا تجارتی مرکزبھی ہے ۔یہاں صرافی کی بڑی بڑی دکانیں بھی ہیں۔ اس روز جب میں ایک صراف سے پیسے تبدیل کروا رہا تھا تو اچانک ہر جانب ہلچل ہوئی اور سب لوگ باہر کی جانب بھاگنے لگے۔ معلوم ہواکہ ایک بار پھر اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے وہی منظر جو کچھ دیر پہلے میدان استنبول میں دیکھا تھا اب میں میدان فردوسی میں دیکھ رہا تھا۔ گویا حملہ آوروں کیلئے دن اور رات میں کوئی تمیز تھی نہ شہری آبادیوں اور بازاروں کا کوئی لحاظ۔ آبادیوں کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث ہی تو پہلے ہی دن کے حملے میں صرف عسکری قیادت اورسائنسدان ہی نہیں 78 شہری شہید اورتین سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ان شہیدوں میں ایک ایرانی سائکلسٹ نجمہ شمس اور نوجوان شاعرہ پرنیا عباسی بھی شامل تھیں۔ پرنیا کا گھر ستار خان اسٹریٹ میں تھا ۔ستارخان اور باقرخان، خیابان چمران پر واقع ہیں میں تہران یونیورسٹی جاتے ہوئے یہیں سے گزرتا ہوں اور جمعے کے روز سفارتخانہ پاکستان جاتے ہوئے یہیں اترا کرتا ہوں۔ پرنیا عباسی ایک نوجوان شاعرہ تھی، جس روز اسرائیلی میزائل نے اسکی اور اسکے پورے خاندان کی جان لے لی اسکے دس دن بعد وہ اپنی چوبیسویں سالگرہ منانے والی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے تین افراد کیساتھ اپنے گھر میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی۔ اسرائیلی میزائل انکی رہائشی عمارت پر لگا اور منہدم عمارت کے ملبے میں سے سب سے پہلے پرنیاکی لاش نکلی، اسکے خوابوں کی جگہ اب فقط اسکا گلابی رنگ کا گدا، اس پر کچھ نسوانی بال اور چوبیس سالہ پرنیاکاخون باقی بچا تھا۔ پرنیا کے بعد اسکے چھوٹے بھائی کی لاش ملی اور پھر کئی گھنٹے کے بعد جب ملبے کی کھدائی کی گئی تو اسکے والدین کی لاشیں نکلیں جو ملبے میں کہیں گم ہوگئی تھیں۔ اس کے والدایک تعلیمی کارکن اور والدہ سابقہ بینک ملازمہ تھیں۔ پرنیا کی ایک نظم میں گویا اسکی شہادت کی خبر پہلے سے موجود تھی:
میں جلتی ہوں
میں ماندپڑجاتی ہوں
میں ایک خاموش ستارہ بن جاتی ہوں
جو تمہارے آسمان میں
دھواں بن جاتاہے
اور اس کیساتھ ہی جنیوا کنونشن کے فیصلے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ضابطے جن میں رہائشی علاقوں کو فوجی حملوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، سب جل کر دھواں ہوگئے ۔