مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(اسرار گاندھی)
اسرار گاندھی کا تعلق الہٰ آباد (حالیہ پریاگ راج) بھارت سے ہے۔ بھارت میں جدید اُردو افسانے کےسَرخیل، اسّی کی دہائی میں نمایاں ہونے والا نام ہے۔ متعدّد سُتھری نِتھری کہانیوں کےخالق، افسانوں کے چار مجموعے منظرِعام پر آچُکے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے دانش وَر بھی اُن کے فن کی وسعتوں، گہرائیوں کے قائل تھے۔
جب کہ خُود اسرار گاندھی کا کہنا ہے۔ ’’اپنی کہانی میں،مَیں خُود نہیں بلکہ میری کہانی قاری سےکلام کرتی ہے‘‘ عمومی نوعیت کے واقعات کو اپنے قلم سے یادگار بنا دینے کے منتّر سے واقف، اسرار گاندھی پاکستان میں زیادہ معروف نہیں۔ بہرکیف، جدید بھارتی سماج کے عکاّس اِس نادرۂ کار تخلیق کار کے افسانے متفرق عناصر، بشمول انسان کے دُہرے پن کو نمایاں کرتے ہیں۔
’’رہائی‘‘ نامی افسانہ اُن کے اِسی نام کے افسانوں کے مجموعے سے لیا گیا ہے، جو 2004ء میں الہٰ آباد سے شرمندۂ اشاعت ہوا۔ اخلاقی معیارات کتنے سیال ہوتے ہیں اور وقت کس طرح کروٹ بدلتا ہے، ’’رہائی‘‘ میں نزاکت سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک قصبے، ایک شخص اور اُس کے ہم سائے میں رہنے والی ایک لڑکی کی کہانی۔ وہ لڑکی جو اپنے محبوب کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔
نومبر کی ایک خُوب صُورت صُبح تھی۔ وہ اندرونِ خانہ سے باہرنکل کربرآمدے میں سلیقے سے رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر آکر بیٹھ گئے۔ اُن کی نظریں سامنے موجود پائیں پاغ کا جائزہ لینے لگیں۔ اُنھوں نے دیکھا، پودوں میں اب خُوب صُورت پھول آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پھول ہمیشہ سے اُن کی کم زوری تھے۔ وہ پھولوں کودیرتک دیکھتے رہے۔ اُن میں ڈوب جاتے اور جب ڈوب کر اُبھرتے تو اپنے آپ کو ماضی کی شاہ راہوں پر پاتے۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا، اگرگوالا ننکو نہ آجاتا۔ ننکو آیا اور اُن کے پیروں کے قریب بیٹھ گیا۔
پھر دھیرے سے بولا۔ ’’نمستے بڑے صاحب۔‘‘ اُنھیں سارا قصبہ ’’بڑے صاحب‘‘ ہی کہتا تھا۔ ہاں سارا قصبہ ، ایک ایسا قصبہ جو ایک بڑے شہر کے پہلو میں آباد تھا اورجہاں شہروں کی اچھائیاں، برائیاں دھیرے دھیرےسرایت کرتی جارہی تھیں۔ ’’نمستے۔ کہو، ننکو! کیسے ہو، باقی سب لوگ کیسے ہیں؟‘‘ ’’سب ٹھیک ہے، آپ کی دِیا ہے۔ بڑے صاحب کو…‘‘ ننکو کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ ’’ہاں ہاں کہو۔ رُک کیوں گئے؟‘‘ ’’کوئی خاص بات نہیں ہے، بڑے صاحب۔‘‘ ’’تو پھر عام بات ہی کہو۔‘‘ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’بڑے صاحب! وہ جوعطیہ بی بی ہیں ناں…‘‘ ننکو کہتے کہتے پھر ہچکچایا۔ ’’کون عطیہ؟
وہ حامد کی لڑکی؟‘‘’’ہاں… ہاں…وہی۔‘‘’’کیا ہوا اُسے؟‘‘’’وہ رات سعید کے ساتھ کہیں بھاگ گئی۔‘‘’’سعید کے ساتھ بھاگ گئی؟‘‘ اُن کی آواز میں حیرت ہی حیرت تھی۔ ایک منٹ کے لیے سنّاٹا چھا گیا۔’’ابے تو سچ کہہ رہا ہے ناں؟‘‘ اُنھوں نے پھر پوچھا۔’’ہاں بڑے صاحب۔ میری مجال، جوآپ کے سامنے جھوٹ بولوں۔‘‘’’یہ خبر تجھے کس نے دی؟‘‘ ’’میری عورت نے۔ وہ کسی کام سے حامد میاں کے یہاں گئی تھی۔
وہاں جب اُس نے عطیہ بی بی کاپوچھا تو حامد میاں نے اُسے بھاگنے والی بات بتائی۔‘‘ ’’کیا یہ بات خُود حامد نے بتائی؟‘‘ ’’ہاں بڑے صاحب۔ خُود حامد میاں نے بتائی۔‘‘’’ننکو! حامد تو بڑے پریشان ہوں گے۔‘‘ ’’کچھ بھی نہیں مالک۔ ہماری عورت کہہ رہی تھی کہ حامد میاں بیٹھے بڑے مجے سے چائے پی رہے تھے۔‘‘ ننکو کی اِس بات نے ستّر برس کے اچھی کاٹھی والے بڑے صاحب کو لرزا دیا۔
وہ کبھی اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتےتھے کہ بیٹی بھاگ جائے اور بیٹی کا باپ بھاگنے کی خبر دے۔’’اے خدا! زندگی میں ایسے دن بھی دیکھنا نصیب میں تھے!‘‘ وہ دھیرے سے بڑبڑائے اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی دادی اماں کا چہرہ روشن ہوگیا۔ دادی اماں، جنھیں مَرے ہوئے نہ جانے کتنے برس ہوگئے تھے، کتنی خُوب صُورت تھیں۔
اُن کے جُھریوں بَھرے چہرے کو جب وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے چُھوتے توکتنا اچھا لگتا، بالکل روئی کے گالوں جیسا۔ اُن دنوں وہ بھی کوئی آٹھ دس برس کے رہے ہوں گے۔ اُنھیں وہ رات یاد آئی، جب دادی اماں کی طبیعت خاصی خراب تھی اور امّی نے اپنا پلنگ دادی کے پلنگ سے جوڑ کر بچھالیا تھا کہ دادی کو رات میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ اُنھیں جگا لیں۔ رات دھیرے دھیرے چڑھ رہی تھی، لیکن نہ جانے کیوں اُنھیں نیند نہیں آرہی تھی۔ نیند تو دادی کی آنکھوں سے بھی کوسوں دُور تھی۔
اچانک وہ دھیرے سے بولیں۔ ’’دلہن سو رہی ہوکیا؟‘‘’’نہیں، ابھی تو جاگ رہی ہوں۔ کوئی کام ہے کیا؟‘‘’’کوئی کام نہیں۔ بس نیند نہیں آرہی۔ افتخار کب آئیں گے؟‘‘دادی نےابّا کے بارے میں جاننا چاہا۔ ’’کچھ کہہ نہیں سکتی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ اُنھوں نے اپنے آپ کو مُلک کی آزادی کے لیے وقف کردیا ہے۔ کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ ایسے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔‘‘’’خالد سو گیا کیا؟‘‘ دادی اماں اُن کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تھیں۔’’ہاں شاید سوگیا۔‘‘امی نے مجھے واقعی سوتا سمجھ کر کہا تھا۔
’’سُنودلہن! مَیں تمھیں آج ایک رازبَھری کہانی میں شریک کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ کہانی کے نام پر وہ بھی چوکنّا ہوگئے تھے لیکن چُپ چاپ آنکھیں بند کیے پڑے رہے۔ ’’سُنایئے۔‘‘ امّی دھیرے سے بولیں۔ دادی چند منٹ خاموش رہیں۔ پھر ایک طویل سانس لے کے بولیں۔ ’’میری ماں میری پیدائش کے کچھ دنوں بعد ہی اِس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ابّا ہی میری ماں بھی تھے اور باپ بھی۔ ابّا اپنی کم گوئی کے لیے پورے خاندان میں مشہور تھے۔ کئی کئی دن بیت جاتے، وہ کسی سے بات تک نہ کرتے۔
گھر کے لوگ اُن کا روز مرّہ کا معمول سمجھ گئے تھے، اِس لیےاُنھیں کسی سے کچھ کہنےکی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی، لیکن اتنی خاموش طبیعت ہونے کے باوجود وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرتے، میرے ساتھ کھیلتے، اپنی گود میں لیے، اپنے سینے سے لپٹائے،کبھی کہیں گھمانے لے جاتے، کبھی کہیں۔ وہ مجھ سے بےپناہ پیار کرتے تھے۔ ابّا میں ایک عجیب عادت تھی، وہ ہر روز فجر کی نماز کے بعد پھولوں سے بَھرے پائیں باغ کے ایک خاص کونے میں اپنی کرسی ڈال کر قرآن ضرور پڑھا کرتے۔ ابّا کوپائیں باغ میں قرآن پڑھتے دیکھ کر مجھےکچھ عجیب سا لگتا۔
مَیں اکثراُن سے کہتی کہ آپ گھر کے اندر قرآن کیوں نہیں پڑھتے تو وہ ہمیشہ ٹال جاتے اور عالیہ پھوپھی کا ذکر کرنے لگتے۔ عالیہ پھوپھی…جنھیں مَیں نے نہیں دیکھا، لیکن ہرکوئی اُن کی خُوب صُورتی اور مزاج کی بہت تعریف کرتا تھا۔ سُنتے ہیں وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوکر علاج کےغرض سے ممبئی گئیں تو پھر کبھی واپس نہیں آئیں۔ مرنے کے بعد وہیں دفن بھی کردی گئیں۔ ابّا کو عالیہ پھوپھی سے بہت لگاؤ تھا۔
وہ اُن کا ذکر کرکے بہت اداس ہوجاتے۔ کبھی کبھی رونے بھی لگتے۔ پھرگھنٹوں گھنٹوں ان پر خاموشی کا دورہ پڑ جاتا۔ یہاں تک کہ مجھ سے بھی نہ بولتے۔ بس کچھ سوچے جاتے، سوچےجاتے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ابّا کی صحت دھیرے دھیرے گرنا شروع ہوگئی تھی۔ اِسی دوران انھوں نے میری شادی بھی کردی۔ مَیں بس چند دنوں کے لیے رخصت ہوئی۔ پھر گھر واپس آگئی تو پھر یہیں کی ہوکر رہ گئی۔ افتخار کے والد بھی جو میرے ساتھ چلےآئے کہ وہ بھی دنیا میں تنہا تھے۔
مَیں اپنے وقت کا زیادہ حصّہ ابّا کی دیکھ ریکھ میں گزارتی، لیکن اُن کی صحت تیزی سےگِر رہی تھی، چلنا پِھرنا بھی قریباً بند ہوچلا تھا۔ مرنے سےایک دن قبل انھوں نے مجھے بلایا اور کہنے لگےکہ مجھے پائیں باغ لے چلو۔ مَیں نے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن اُن کی ضد کے آگے ہار گئی۔ مَیں بڑی مشکلوں سے اُنھیں پائیں باغ لے گئی۔ وہ اُسی کونے میں جا کر بیٹھ گئے، جہاں قرآن پڑھنے کے لیے بیٹھا کرتے تھے۔ اچانک وہ زارو قطار رونے لگے، پھر دیر تک روتے رہے۔ مَیں بڑی مشکل سے اُنھیں ان کے بستر تک لے آئی۔
وہ تھوڑی دیر خاموشی سے لیٹے رہے۔ پھر مجھ سے بولے۔ ’’بیٹی! تم مجھ سے اکثر پوچھتی تھیں ناں کہ آپ پائیں باغ میں اُس جگہ بیٹھ کرقرآن کیوں پڑھتے ہیں اور مَیں اِس بات کوٹال جاتا تھا، لیکن اب جب کہ مَیں، دو ایک دن کا مہمان اور ہوں، سوچتا ہوں کہ تمھیں وہ کہانی سُنادوں، جو میرے دل پر کسی پہاڑ جیسا بوجھ بنی ہوئی ہے۔ ایک منٹ کی خاموشی کے بعد ابّا پھر بولے۔ بیٹی! یہ کہانی تمھاری عالیہ پھوپھی سے متعلق ہے۔ وہ کسی کو پسند کرتی تھیں، اُس سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔
وہ اپنے عزیزوں میں سےتھا،لیکن چوں کہ معاشی طور پر ہماری برابری نہیں کرسکتا تھا، اس لیے یہ شادی بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ ہوتی تو ابّا جانی کی آنکھیں نیچی ہوجاتیں اور یہ اُن کے لیے مر جانےکی بات ہوتی۔ یوں بھی ابّا جانی بڑے سخت مزاج واقع ہوئے تھے۔ اپنی آن کے پیچھے کچھ بھی کرسکتےتھے۔ اُنھی دنوں ایک روزنہ جانے کیسے ابّاجانی کے کانوں میں یہ بھنک پڑی کہ عالیہ اُس لڑکے کے ساتھ فرار ہونے کا سوچ رہی ہیں۔
ابّا کی آنکھوں میں خُون اُترآیا، لیکن وہ کچھ بولے نہیں، خاموش رہ گئے۔ ’’کیا واقعی عالیہ پھوپھی بھاگنا چاہتی تھیں؟‘‘ مَیں نے ابّا سے پوچھا۔ ’’بیٹی! سچ کیا ہے، مجھے معلوم نہیں۔ مَیں خُود بھی اُن دِنوں دس گیارہ برس کا تھا اور مجھ میں اتنی سمجھ نہیں تھی کہ سچ کا پتا لگا سکتا۔ ہوسکتا ہے، کسی نے خباثت میں یہ بات ابّا سےکہہ دی ہو کہ عالیہ سے جلنے والے بھی اچھے خاصے تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر ابّا خاموش ہوگئے۔ پھر دیر تک خاموش رہے۔ ’’ابّا! پھر کیا ہوا؟‘‘ مَیں نےدوبارہ ابّا کوکہانی کی طرف لانے کی کوشش کی۔
’’بیٹی! ہونا کیا تھا۔ چند دنوں بعد ممبئی سےبڑے چچا آگئے، جو اپنی سخت مزاجی کے لیے دُور دُور تک جانے جاتے تھے۔ اُس دن ابّاجانی اور بڑے چچا دن بھر آپس میں کھسر پھسرکرتے رہے۔ رات میں اچانک میری آنکھ کُھلی تو نہ جانے کیوں گرمی کا احساس ہوا۔ دیوار پرٹنگی گھڑی دیکھی، تو رات کے دو بج رہے تھے۔ مَیں اپنے کمرے سے باہر آنگن میں نکل آیا۔ نظریں اِدھر اُدھر گھومتی عالیہ کے کمرے پر پڑیں، تو دیکھا اُن کے کمرے میں روشنی ہورہی ہے۔
مَیں نے سوچا کہ شاید وہ جاگ رہی ہیں۔ میں اُن کے کمرے کے قریب پہنچا تو لگا، جیسے کمرے میں کوئی اور بھی ہے۔ دروازے کی جِھری سے جھانک کر دیکھا تو لگا، جیسے اچانک میرے ہاتھ پاؤں کی جان نکل گئی ہو۔ کمرے میں ابّا جانی اور بڑے چچا موجود تھے۔ ریشم کی ایک رسّی کا ایک ایک سِرا دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں تھا اور رسّی کے بیچوں بیچ پھندے میں پھنسی ہوئی عالیہ کی گردن۔ دونوں بھائی پوری قوت سے رسّی کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ عالیہ کی گردن جُھول چکی تھی اورآنکھیں اپنے حلقوں سے باہر نکل آئی تھیں۔ پھر اِس سے پہلے کہ کوئی چیخ میرے گلے سے آزاد ہوتی، مَیں وہیں بےہوش ہوکر گر پڑا۔
ہوش آیا تو دیکھا، چچا سامنے کرسی ڈالے بیٹھے ہیں۔ اُن کا چہرہ بہت خوف ناک ہورہا تھا۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر میرے بالکل قریب آگئے اور انتہائی کرخت آواز میں بولے۔ ’’تم نے رات جو دیکھا، اُسے ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ، ورنہ رسّی وہی ہوگی، لیکن گردن تمھاری۔‘‘ اوراُٹھ کر چل دیے۔ مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ مہینوں سوتے جاگتے وہی عالیہ کے کمرے والا منظر دکھائی دیتا۔
ابّا جانی اور بڑے چچا کے ہاتھوں میں رسّیوں کےسِرے اور بیچ میں جُھولتی عالیہ کی گردن۔ بیٹی! وہ صرف عالیہ کی گردن نہیں تھی بلکہ وقت کےپھندے میں پھنسی ’’عورت‘‘ کی گردن تھی۔ اِس واقعے کےکئی دنوں بعد میں نے پائیں باغ کا بغور جائزہ لیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ عالیہ وہیں دفن ہیں، جہاں مَیں روزانہ قرآن پڑھتا رہا ہوں۔‘‘ ’’لیکن ابّا! وہ عالیہ پھوپھی کی بیماری اور پھر ممبئی میں اُن کی موت…‘‘مَیں نے ابھی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ ابّا بول پڑے۔ سب جھوٹ، سراسر بکواس۔
یہ من گھڑت کہانی ابّاجانی اور بڑے چچا نےپھیلائی تھی کہ اُنھیں اپنا جرم جو چُھپانا تھا۔‘‘ اتنا کہہ کرابّا چُپ ہوگئے، پھر نہ بولے۔ اور اگلی صبح وہ ہمیشہ کے لیے گہری نیند سوگئے۔ دادی کہانی سُنا کر رونے لگیں۔ اُن کے ساتھ ممی کی سسکیاں بھی صاف سُنائی دے رہی تھیں۔ خُود اُنھوں نے بھی محسوس کیا کہ جیسے اُن کے ہاتھ پیر شل ہوتے جا رہے ہیں۔ دادی آہستہ سے پھربولیں۔ ’’دلہن! میرے سینے پر ایک بھاری بوجھ تھا، جو آج میں نے اُتاردیا۔
اب یہ بوجھ تم سنبھالو۔‘‘ دادی کو کیا پتا تھا کہ یہ بوجھ اُنھوں نے صرف امی کے سینے ہی پر نہیں بلکہ میرے سینے پر بھی رکھ دیا تھا۔ لیکن یہ بوجھ بڑھتی ہوئی عُمر کے ساتھ ساتھ میرے لیے بےمعنی سا ہوگیا کہ خاندان کا وقار بہرحال بامعنی تھا۔ ’’بڑے صاحب! اب چلتے ہیں۔‘‘ ننکو کھڑا ہوتا ہوا بولا، تو وہ ایک دَم سے چونک پڑےاوردادی کا روشن چہرہ اچانک غائب ہوگیا۔
’’ننکو! قصبے میں کُھسر پُھسر شروع ہوگئی ہوگی۔‘‘ اُنھوں نے جاتے ہوئے ننکو سے پوچھا۔ ننکو جاتے جاتے رک گیا، پھر پلٹ کر بولا۔ ’’کچھ بھی نہیں بڑے صاحب! سب کچھ بالکل کل جیسا ہی ہے۔ نہ بات، نہ چیت۔‘‘ اُنھیں ننکو کی اِس بات پر یقین نہ آیا۔ اب ایسا بھی کیا کہ قصبے کے لوگوں کو اس واقعے کا عِلم ہو اور پھر بھی کوئی ہلچل نہ ہو۔ اُنھوں نے سوچا کہ قصبے والےحامد کا جینا دوبھر کردیں گے، جو گھر بیٹھے مزے سے چائے پی رہے ہیں اور بیٹی کے بھاگ جانے کا واقعہ خُود ہی بیان کر رہے ہیں۔
اُنھیں کوئی تیس پینتیس برس پہلے کا واقعہ یاد آگیا۔ اِسی طرح رام اوتار کی لڑکی بھی بھاگ گئی تھی۔ قصبے میں کتنا واویلا مچا تھا۔ لوگوں نے رام اوتار کی کیسی گت بنائی تھی کہ اُسے قصبہ چھوڑ کر بھاگتے ہی بنی تھی۔ اس کے بعد تو وہ کبھی دکھائی بھی نہیں پڑا۔ معلوم نہیں، اب بھی زندہ ہے یا منہ کالا کرکے کہیں مرکھپ گیا۔ رام اوتار کو اِس طرح بھگانے میں خُود بڑے صاحب بھی آگےآگے تھے کہ قصبے کی بےعزتی وہ کس طرح برداشت کرتے۔ اُنھیں تو رام اوتار کا حقّہ، پانی بند ہونا بھی مطمئن نہ کرسکا تھا۔
ننکو کے جانے کے بعد انھوں نے ایک طویل سانس لی، پھراُن کی نظریں سامنے لٹکے ہوئے کلاک پر ٹِک گئیں۔ دس بج رہے تھے۔ اُنھوں نےسوچا، اب قصبے کے وہ لوگ آنے ہی والے ہوں گے، جو ہر اتوار کو اِس وقت آتے ہیں۔ اُن آنے والوں میں ہرعُمر کے لوگ ہوتے تھے۔ وہ وہاں آکردیر تک گپ شپ کرتے۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ بھی ہوتا اور تفریحی باتیں بھی۔ تھوڑی دیر بعد لوگ آنا شروع ہوگئے۔ بڑے صاحب کا خیال تھا کہ آج بات کا مرکز عطیہ ہوگی، لیکن آنے والوں نے جب عطیہ کے بھاگنے کا کوئی ذکر نہ چھیڑا تو اُنھیں مایوسی ہوئی۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتےتھے کہ اِس طرح کا کوئی واقعہ ہوجائے اور لوگ اُس کا ذکر بھی نہ کریں۔ پھر انھیں خیال گزرا کہ ہوسکتا ہے، لوگوں کو ابھی واقعے کا علم ہی نہ ہوا ہو۔ تو اُنھوں نےخُود ہی بات چھیڑی۔ ’’حامد کی لڑکی والا معاملہ تو تم لوگوں کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔‘‘ ’’ہاں، کوئی بتا تورہا تھا۔‘‘ موجود لوگوں میں سے ایک بڑی لاپروائی سے بولا۔ اُس کے ساتھ ہی دوسروں نے بھی واقعے کا علم ہونے کے اقرارمیں اپنی اپنی گردنیں ہلائیں۔
بڑے صاحب وہاں موجود لوگوں کے اس رویّے پرحیرت زدہ رہ گئے۔ وہ سمجھ رہےتھےکہ بحث کا ایک سلسلہ چل نکلے گا، لوگ عطیہ کے ساتھ حامد کو بھی برُا بھلا کہیں گے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولے۔’’عطیہ کےاِس طرح بھاگنے پر قصبے کی کتنی بےعزتی ہوگی۔‘‘ ’’کیوں، قصبے کی کیوں بےعزتی ہوگی؟ اُس کے بھاگنے سے قصبے والوں کا کیا لینا دینا۔ یہ تو حامد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ جانے، اُس کا کام جانے۔‘‘ موجود لوگوں میں سے ایک دوسرا شخص بولا۔ ’’ارے واہ! یہ بھی خوب کہی۔
دوسرے گاؤں والوں کے سامنے تمھاری مونچھیں نیچی نہیں ہوں گی کیا؟ قصبے کی کوئی بھی لڑکی ہر کسی کی لڑکی ہوتی ہے۔‘‘بڑے صاحب چٹک کربولے۔’’بڑے صاحب! وہ دن گئے، جب ایسا ہوتا تھا۔ اب کسی کوکسی کی فکر نہیں ۔ ہر آدمی اپنی الجھنوں میں پھنسا ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت کہ وہ دوسروں کے پھڈوں میں ٹانگ اڑائے۔
پھر اب اچھے لڑکے ملتے ہی کہاں ہیں اور اگر مل بھی جائیں تو اُنھیں بڑے لوگ اُچک لیتے ہیں یا پھر اپنی لڑکیوں کو اتنی آزادی دیتے ہیں کہ وہ اچھے لڑکوں کو خُود ہی اُچک لیں۔ بےچارے حامد میاں تو یہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔‘‘ بڑے صاحب سنّاٹے میں آگئے۔ اُنھوں نے سوچا کہ یہاں تو سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل چُکا ہے، لیکن وہ ہار نہیں مانے۔ ایک بار پھر اپنی سی کوشش کی۔ ’’بھئی، تم لوگوں کی بات میرے حلق سے نہیں اُترتی۔
گندگی ہمیشہ گندگی کہلائے گی۔ پھر وہ سعید تو…‘‘ وہ اپنی بات کہتے کہتے رُک گئے۔ اِس سے پہلے کہ وہ اپنی باتوں کا سرا دوبارہ جوڑتے، بیچ ہی میں کوئی بول پڑا۔ ’’بڑے صاحب! ہرکسی کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار ہے۔ پھر ہم لوگوں میں سے کس نے حامد میاں کی مدد کی۔ کسی نے اپنے گھر میں عطیہ کی شادی کرلی ہوتی، تو مَیں جانتا۔ اب وہ دَورگیا کہ جب رام اوتار کوقصبہ چھوڑکر بھاگنا پڑا تھا۔‘‘ بڑے صاحب اب وہاں موجود لوگوں سے بالکل مایوس ہوچُکے تھے۔
اُن کی نظریں اُس آخری آدمی پر ٹِک گئیں، جس نے اب تک اس بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ ’’تم بھی کچھ بولو۔‘‘ اُنھوں نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیابولوں بڑےصاحب! یہ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ پھر سعید میں برائی بھی کیا ہے۔ عطیہ کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی تو دے سکے گا۔ بس، بات صرف ایک ذات کی ہی ہے،تو اب یہ سب کچھ بےمعنی ہوگیا ہے۔ حامد نے ٹھیک ہی کیا کہ عطیہ کو بھاگتے وقت روکا نہیں۔‘‘ ’’کیا کہا، کیا حامد نے عطیہ کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟‘‘
بڑے صاحب نے اچھلتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ہاں، حامد میاں نے مجھے یہی بتایا۔ وہ اس بات کو بتا کر پہلے تو خُوب ہنسے، پھر اچانک بےاختیار رونے لگے اور دیر تک روتے رہے۔‘‘ بڑے صاحب اندرہی اندر کھول اُٹھے، لیکن کچھ بولے نہیں کہ شاید اُس وقت خاموشی ہی مناسب تھی۔
تھوڑی دیر بعد تمام لوگ چلے گئے۔ صرف بڑے صاحب آنکھیں بند کیے تنہا بیٹھے رہے۔ اب اُن کے اندر کی بےچین لہریں آہستہ آہستہ شانت ہونے لگی تھیں۔وہ اندرونِ خانہ جانے کے لیے اُٹھے تو خاصے پرُسکون تھے۔ اُٹھتے اُٹھتے انھوں نے سوچا کہ شاید اب وقت کی گردن عورت کے پھندے میں پھنس چُکی ہے۔ برآمدہ پار کرتے ہوئے وہ دھیرے سے بڑبڑائے۔ ’’اللہ کا شُکر ہے، عطیہ کسی ہندو کے ساتھ نہیں بھاگی۔‘‘