• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا اسد اللہ خاںغالب نے کہا تھا ’’آم ہوں اور بہت سے ہوں۔‘‘پاکستان میں موسمِ گرما کے آغاز کے ساتھ ہی چھوٹوں، بڑوں، بزرگوں غرض یہ کہ سب ہی کو پھلوں کے بادشاہ ’’آم‘‘ کا بے صبری سے انتظار ہوتاہے۔ مئی، جون کے گرم ترین مہینوں میں اس پھل کی آمد سے ایک خوش گواریت کا سا احساس ہوتا ہے کہ بازار میں طرح طرح کے رنگ برنگے آم اپنی بہار دِکھلانے لگتے ہیں اورپھر اِن کے زرد رنگ اور ذائقے کے سامنے دیگر تمام پھلوں کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا خوش ذائقہ، لذیذ پھل ہے، جسے ہر عُمر کے لوگ بہت شوق و رغبت سے کھاتے ہیں۔ 

موسمِ گرما کا یہ اہم ترین پھل، نہ صرف اپنےمنفرد ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے جانا جاتا ہے، بلکہ غذائیت اور معاشی اہمیت کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے۔تب ہی موسم ِگرما کے ساتھ ہی مُلک بھر کے بازار رنگ برنگے، رَس بَھرے آموں سے سج جاتے ہیں، اور ہر خاص و عام کے لیے ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ 

اس پھل کی فصل نہ صرف کاشت کاروں کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، بلکہ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ واضح رہے، آموں کی کئی اقسام بڑی تعداد میں اندرونِ مُلک استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی برآمد کی جاتی ہیں۔

تاہم، بدقسمتی سے اس سال آم کے کاشت کاروں کو ایک سنگین اور تشویش ناک صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ملک کے مختلف حصّوں، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے آم کے باغات میں فنگس کے حملے، مختلف کیڑوں کے انفیکشن اور وائرل بیماریوں کی اطلاعات ہیں، جن کی وجہ سے آموں کی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کے ساتھ متاثرہ باغات میں پھل کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 

اس صورتِ حال میں جہاں آموں کے باغات کے مالکان، بیوپاری سخت معاشی مشکلات سے دوچار ہیں، وہیں ملکی سطح پر دست یابی اور قیمتوں پر منفی اثرات مرتّب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ ماہرین ِزراعت کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں، درجۂ حرارت میں غیر متوقع اضافے، غیر معیاری زرعی ادویہ کے استعمال اور باغات کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ 

اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ زرعی ادارے فوری طور پر حرکت میں آئیں اور کسانوں کو ان بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری رہنمائی، ادویہ اور مالی امداد فراہم کریں۔

پاکستان میں آم کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا منفرد ذائقہ، رنگ اور خوشبو ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آم کی کاشت 4ہزار سال سے ہورہی ہے اور اس کی سیکڑوں اقسام میں ہر ایک کا ذائقہ، ساخت، حجم اور رنگ مختلف ہے۔ یہ پھل لذیذ ہونے کے ساتھ صحت بخش غذائی اجزا سے بھی مالا مال ہوتا ہے۔ 

ماہرین کے مطابق، آم انسانی صحت کے لیے مفید ہے اور یہ دل اور معدے کے امراض دُور کرنے میں خاصی مدد دیتا ہے۔ اس کے استعمال سے خون بننے اورپیٹ کی بیماریاں ختم کرنے میں مدد ملتی ہے، جب کہ اس کا رس/شیک انتہائی فرحت بخش ہے۔

متعدد تحقیقی رپورٹس میں آم کھانے کی عادت کو صحت کے لیے کئی فوائد کا حامل قرار دیا گیا۔ یہ مدافعتی نظام کی مضبوطی، بینائی میں بہتری، مخصوص اقسام کے کینسر زکےخاتمے اور ہاضمے میں انتہائی مفید گردانا جاتا ہے۔ 

یہ پھل مختلف وٹامنز سے بھرپور ہے، تو اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربوہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین موجود ہوتا ہے۔ 

وٹامنز اے، بی، سی کے ساتھ یہ دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ ہے، جب کہ اس میں شامل وٹامن سی کی وافر مقدار، جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے ساتھ جِلد کو بھی صحت مند رکھتی ہے۔ آم میں قدرتی شکر موجود ہوتی ہے، جو جسم کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک صحت بخش پھل ہے، لیکن اس کے زیادہ استعمال سے کچھ نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔

قدرتی شکر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ استعمال وزن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ذیابطیس کے مریضوں کو آم کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ بلڈ شوگر کی سطح بڑھا سکتا ہے۔ 

اِسی طرح بعض افراد کو آم کے زیادہ استعمال سے پیٹ میں درد، گیس یا اسہال کی شکایت ہوسکتی ہے۔ جب کہ مصنوعی طریقے سےکیمیکلز میں پکائے گئے آم صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا، استعمال میں اعتدال بہرحال ضروری ہے تاکہ فوائد زیادہ سے زیادہ اور نقصان کم سے کم ہو۔

چند مشہور اقسام

سندھڑی: سندھ کے آم کی مشہور ترین قسم ہے، جو میٹھے، رَس بھرے ذائقے اور لمبوتری شکل کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ عام طور پر مئی کے آخر اور جون کے شروع میں دست یاب ہوتی ہے۔

چونسہ: پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی اقسام میں سے ایک ہے۔ اس کا ذائقہ بہت میٹھا اور خوشبو عمدہ ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر جولائی میں پکتا ہے۔ 

انور رٹول: یہ چھوٹی جسامت کا، لیکن بہت میٹھا آم ہے، جو اپنی مخصوص خوشبو کے سبب جانا جاتا ہے اور عام طور پر جون کے آخر میں دست یاب ہوتا ہے۔

دسہری: لمبی  اور قدرے چپٹی شکل کا یہ آم اپنے ریشے سے پاک گُودے اور میٹھے ذائقے کے لیے مشہور ہے۔

لنگڑا: یہ بیضوی شکل کا آم ہے، جس کا ذائقہ کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ یہ اپنی مخصوص خوشبو اور دیر تک محفوظ رہنے کی صلاحیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

فجری: یہ بڑی جسامت کا آم ہے، جو دیر سے پکتا ہے اور اگست تک دست یاب رہتا ہے، جب کہ اس کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے۔ 

گلاب خاص: چھوٹی جسامت کا گلابی رنگ کا آم ہے، جس کی گلاب جیسی خوشبو ہوتی ہے۔

بینگن پھلی: یہ لمبی اور قدرے موٹی شکل کا آم اپنے میٹھے اور رسیلے گودے کے لیے جانا جاتا ہے۔

سرولی: سندھ کے آم کی ایک اور مشہور قسم ہے، جو اپنے میٹھے ذائقے اور ریشے سے پاک گُودے کے سبب پہچانی جاتی ہے۔