کہانی ہمیشہ اُن لوگوں کی سنائی جاتی ہے جو نظر آتے ہیں، مگر وقت کی چھان پھٹک سے گزرنے کے بعد تاریخ اُنہیں محفوظ رکھتی ہے جو نظر نہیں آتے مگر اصل فیصلے انہی کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ یہ تحریر ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جس نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں بارہا ثابت کیا کہ اگر جذبہ خالص ہو، ارادہ مضبوط ہو، اور نیت میں فتور نہ ہو، تو وہ شخص محدود وقت اور محدود اختیار میں بھی ناممکن کو ممکن میں بدل سکتا ہے۔ محسن نقوی، ایک ایسا نام جو بظاہر ایک میڈیا مین، ایک عبوری منتظم، یا ایک وقتی کردار محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ ایک تدبر، نظم، اخلاص، اور پختہ کاری کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔
ان کی زندگی کی سب سے بڑی طاقت اُن کا یہ یقین ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، سچائی آخر کار اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اُترے، کبھی بغیر تالیوں کے، کبھی بغیر تحسین کے، اور اکثر تنقید کے ساتھ۔ مگر اُنہوں نے نہ راستہ بدلا، نہ طریقہ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ راستہ اگر سچ کا ہو، تو دیر ضرور لگتی ہے، مگر منزل قریب ضرور آتی ہے۔
جب وہ صحافت میں آئے، تو ان کے پاس نہ کوئی سیاسی پشت پناہی تھی، نہ ہی خاندانی رسوخ۔ ان کے پاس صرف ایک چیز تھی: خواب۔ ایک ایسا خواب جو انہیں راتوں کو جگاتا تھا اور دن کو بھاگنے پر مجبور کرتا تھا۔ وہ خواب کہ پاکستان کا میڈیا صرف چیخنے چِلانے کا پلیٹ فارم نہ ہو، بلکہ فہم، وقار، اور شائستگی کا آئینہ ہو۔ وہ اپنے کیمرے کے پیچھے چھپے رہتے، مگر جو عکس وہ دکھاتے، وہ ہمیشہ سچ کے قریب ہوتا۔ صحافت میں آنے کے بعد ان پر دباؤ بھی آیا، سفارشیں بھی آئیں، دھمکیاں بھی ملیں، اور بعض اوقات سازشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر انہوں نے وہی کیا جو ضمیر نے کہا۔ اور یہی وہ وصف تھا جو اُنہیں ممتاز بناتا گیا۔
پھر جب حالات نے کروٹ لی، اور ایک نگران حکومت کی ضرورت پڑی، تو کئی طاقتور لوگ میدان میں آئے۔ مگر چُنا گیا اُس شخص کو جو شور نہیں کرتا تھا، مگر کام کرتا تھا۔ محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ سب حیران ہوئے۔ ایک صحافی؟ ایک میڈیا پرسن؟ مگر وہ خاموشی سے دفتر آئے، میز پر ہاتھ رکھا، فائلیں پڑھنا شروع کیں اور کام کا آغاز کر دیا۔
وہ صرف دعوے نہیں کرتے تھے۔ اُن کے دفتر میں تسبیح بھی ہوتی تھی، اور ورک پلان بھی۔ وہ دن کو مسائل سنتے، شام کو منصوبہ بناتے، اور رات کو دعا کرتے کہ “یا رب، مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو جائے۔” اُنہوں نے پنجاب کے شہروں کا نقشہ بدلا، چھوٹے اسپتالوں کو فعال کیا، پولیس کی اصلاحات شروع کیں، اور بیوروکریسی کو میرٹ پر لگایا۔ مگر میڈیا پر آنے سے گریز کیا۔
اسی دوران کرکٹ کا معاملہ آیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا انتظام اُن کے سپرد ہوا۔ جہاں سیاست دان کرکٹ کو تخت کا کھیل بناتے ہیں، وہاں محسن نقوی نے اُسے وقار کا میدان بنایا۔ بین الاقوامی ٹیموں کو واپس بلایا، بورڈ کی شفافیت پر کام کیا، نوجوانوں کے لیے دروازے کھولے، اور کرکٹ کو قومی اتحاد کا ذریعہ بنایا۔ وہ کرکٹ کے ذریعے سفارت کاری بھی کرتے رہے۔ انہی کی کوششوں سے کئی ایسے ممالک نے پاکستان کا دورہ کیا جو برسوں سے انکار کرتے آئے تھے۔
مگر اصل معرکہ تب شروع ہوا جب مشرقِ وسطیٰ کے بادل چھانے لگے۔ ایران اور اسرائیل آمنے سامنے آ گئے۔ پوری دنیا خوفزدہ ہو گئی۔ پاکستان نے خود کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش کی، مگر دباؤ بڑھتا گیا۔ اُسی دوران صدر ٹرمپ اور آرمی چیف کی ملاقات ہوئی، جسے دنیا نے ایک روایتی فوجی ملاقات سمجھا، مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ اس ملاقات کے پردے کے پیچھے ایک غیر روایتی دماغ کام کر رہا تھا۔ وہ دماغ، محسن نقوی کا تھا۔اُنہوں نے امریکی تھنک ٹینکس کو بریفنگ دی، CNN اور دیگر اداروں تک پاکستان کا غیر عسکری موقف پہنچایا، اور ثابت کیا کہ پاکستان امن کا داعی ہے۔ جب امریکہ کے سینیٹرز اور دانشور یہ کہنے لگے کہ ’’پاکستان نے پہلی بار توازن اور حکمت کے ساتھ موقف دیا ہے‘‘، تو یہ وہ لمحہ تھا جب محسن نقوی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ صرف نگران نہیں، وہ نگہبان بھی ہیں۔
پھر آیا وہ لمحہ جو قیامت سے کم نہ تھا۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف پراکسی وار شروع کی۔ میڈیا پر زہر اُگلا گیا۔ سرحدوں پر تناؤ بڑھا۔ عوام اضطراب میں تھے۔ فوج الرٹ تھی۔ مگر سفارتی محاذ پر خلا تھا۔ محسن نقوی نے پھر میدان سنبھالا۔ سفارتخانوں کو ہنگامی ہدایات جاری کی گئیں۔ پاکستانی موقف کو دنیا کے سامنے دلائل، ثبوت اور اصولوں کے ساتھ رکھا گیا۔ محسن نقوی نے کئی غیر ملکی دورے کیے، کئی خفیہ ملاقاتیں کیں، اور پاکستان کا وہ چہرہ دکھایا جو اکثر پردے کے پیچھے رہتا ہے۔
محسن نقوی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کوئی سیاستدان نہیں، وہ کوئی انقلابی مقرر نہیں، وہ جلسے نہیں کرتے، نعرے نہیں لگاتے۔ مگر وہ ریاست کے اندر ریاست کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اداروں کو نہیں توڑتے، اُنہیں نرمی سے جگاتے ہیں۔ وہ بیانیہ مسلط نہیں کرتے، وہ دلیل سے قائل کرتے ہیں۔
وہ پاکستان کے اس خواب کی تعبیر ہیں جو قائداعظم نے دیکھا تھا۔ وہ اُس خاموش مجاہد کی علامت ہیں جو نہ نشانیاں چھوڑتا ہے نہ خود کو پیش کرتا ہے۔ وہ بس ہر بحران میں ملک کے لیے ڈھال بن جاتا ہے، ہر طوفان میں کشتی کا پتوار بن جاتا ہے۔اور شاید ہم سب کو اس وقت ایسے ہی کردار کی ضرورت ہے جو بینر نہ لٹکائے، مگر نیت کا پرچم بلند رکھے،جو مائیک پر نہ بولے، مگر عمل سے قوم کو جگا دے۔