• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا قومی سیاسی منظر نامہ غیر مستحکم تو گئے وقتوں سے ہی تھا ، لیکن میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ہم ، اور اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، منظم انہدام کی طرف بڑھ رہے ہوں گے ۔ اور یہ تباہی مکمل ہوگی ۔ ہم نہ صرف اس منزل کے کافی قریب ہو گئے ہیں بلکہ بڑھتے ہوئے خوف کے ساتھ اس صورت حال کو دیکھ رہے ہیں جو ہمیں درپیش ہے ۔ تو کیا اس خوفناک کھائی میں گرنا ہمارا مقدر تھا؟

پاکستان کی سرزمین تجربے کرنے کیلئےبہت سازگار ہے۔ اس ملک میں جس نے بھی اقتدار سنبھالا، چاہے اس کیلئے جو بھی ہتھکنڈے استعمال کیے ، اور چاہے وہ سویلین تھے یا وردی پوش، وہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے اس پر اپنے منصوبے مسلط کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ اسے کیا قبول کرنا ، اور کسےرد کرنا چاہیے ۔نامعلوم اور انجان راہوں پر پرہول ویرانے کی طرف بڑھتا ہوا ملک اپنی بنیادی اقدار کھو بیٹھا۔

یہ کہانی متعدد بار دہرائی جا چکی ہے ۔ ایسے ہر تجربے نے ہمیں دوبارہ نقطہ آغاز تک پہنچا دیا ۔ دائروں کا یہ سفر ہم پوری توانائی سے ایک بار پھر شروع کرتے ہیں ، اور مشکل راہیں طے کرتے ہوئے دوبارہ اُسی منزل پر آن کھڑے ہوتے ہیں ۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہم نہ صرف بے حسی کی یکسانیت کا شکار ہو چکے ہیں بلکہ گرد و پیش کے واقعات میں دلچسپی سے بھی عاری ہیں۔ اسکے نتیجے میں ہم میں سے زیادہ تر اس سرزمین سے ناامید ہوکر امکانات سے بھرپور دور دراز کی زرخیز سرزمینوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اگرچہ آزادی کے وقت سے ہی یہ صورت حال تھی لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران اس میںخوفناک حد تک تیزی آئی ہے، اور کم و بیش چالیس لاکھ افراد ملک چھوڑ کر دیگر ریاستوں میں جا بسے ہیں ، اور بہت سے انکے پیچھے پر تول رہے ہیں ۔ آج جب ہم اردگرد دیکھتے ہیں تو ہماری کارکردگی کا کھاتہ انتہائی افسوس ناک اعدادوشمار پیش کرتا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ملک ایک ایسےمرحلے میں داخل ہو گیاہے جہاں آئین ، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کا بستر گول ہو چکا ۔ چھبیسویں ترمیم کی منظوری سے آزاد عدلیہ کا تصور دفن سمجھیں ۔ اس کا مطلب ہےکہ تین ستونوں، جن پر ریاست کھڑی ہوتی ہے ، کی بجائے صرف ایک رہ گیا ہے ۔ اس کی وجہ سے تمام ڈھانچہ ڈگمگا رہا ہے ۔

عجیب بات ہے کہ حکومت کے ایک سینئر وزیر نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ہم ایک ہائبرڈ سسٹم رکھتے ہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہم ، بلکہ غالب ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسا بندوبست کچھ اور ممالک میں بھی موجود ہے جن کا موازنہ امریکہ اور یورپ سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ ایسا نظام ہمارے ماحول کیلئے زیادہ موزوں ہے، اور ہمیں اسے حکومت کی ایک مستقل شکل کے طور پر اپنالینا چاہیے ۔ یہ تنازع 27ویں آئینی ترمیم کی بابت گردش کرنے والی افواہوں سے مزید تقویت پاتا ہے ۔

عجیب دعوے ہیں یہ ، اور ان کی معقولیت سمجھنے سے میں قاصر ہوں کہ آخر یہ بے ڈھنگا امتزاج ہمارے ملک کیلئے کیوں سازگار بتایا جا رہاہے اور لوگوں کو اس کی کیا ضرورت ہے ؟ہوسکتا ہے کہ دنیا ہنگامی دور سے گزر رہی ہےاور اسکے سامنے اپنے مسائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آئین، قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کو خیر باد کہتے ہوئے منصوعی معمول کو اپنا لیں،اوراس ہائبرڈ نظام کی تعریفیں شروع کردیں جس میں بدعنوان اور مفاد پرست اشرافیہ کا ٹولہ اس ملک اور اسکے عوام کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔

جہاں تک اس خود ساختہ نظام کے حامیوں کا تعلق ہے تو تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے تاکہ ان چیلنجوں کا ادراک کیا جا سکے جو ایسے غیر فطری اور خطرناک گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سر اٹھاتے ہیں۔ ایک موثر نظام چیک اینڈ بیلنس کے ابدی اصول پر مبنی ہے جو لامحدود اختیارات کے حامل لوگوں کے ایک منتخب گروہ کو ایکسلیٹرپر پاؤں رکھ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے اور اپنےعہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ذاتی اثاثوں کو جمع کرنے کی منصوبہ بندی کرنے سے نہیں چلتا۔ یہ تباہی کا ایک نسخہ ہوگا جیسا کہ ماضی کے مصائب بتاتے ہیں ۔

ہم اس نہج تک کیسے پہنچے جہاں ہر راستہ جو ہم اختیار کرتے ہیں ، الٹ پھیر ثابت ہوتا ہے؟ اس کا جواب کچھ لوگوں کو پریشان کر سکتا ہے، خاص طور پر حکمران طبقے کو، لیکن دلیل کے ساتھ اس کی تردید کرنا ناممکن ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے کبھی غلامی کے جوئے کو اتارنے کی حقیقی کوشش نہیں کی جسکے ساتھ ہم زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اسکی بجائے ہوا یہ کہ انگریز کے جانے کے بعد ہمارے مقامی مفاد پرست طبقے نے پنجے گاڑ لیے ۔ یہ طبقہ کبھی عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار نہیں رہا۔ انہوں نے صرف اپنے اور اپنے حامیوں کے مفاد کا خیال رکھا ، وہ حامی جو عوام کو دبائے رکھنے میں ان کے دست راست تھے مبادا عوام انکےمسلسل حق حکمرانی کیلئےایک چیلنج بن جائیں ۔

ہم نے نہ صرف ایک چھوٹی سی اقلیت کو اکثریت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی بلکہ موروثی نظام کے تصور کو بھی قبول کر لیاجہاں اقتدار باپ سے خود بخود اگلی نسل تک منتقل ہوجاتا ہے۔ حکمران طبقے کی غلامی میں خوش ہونے کا تصور اس المیے کی سنگینی کا احساس دلاتا ہے کہ ہم کس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔

یہ کسی فرد کی بات نہیں ، آج ہمارے مجموعی وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کا تعلق پوری قوم اور آنے والی نسلوں سے ہے۔ ایک سادہ سا سوال جس کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا ہم غلامی کی زنجیروں کو اپنے لیے قبول کرنے کے بعد انھیں اپنے بچوںکیلئے وراثت میں چھوڑ جائیں گے؟ یا معرکہ ذہن میں لڑا جانا ہے ، قدم بقدم آگے بڑھنا ہے ، قوم کو اس کا وقار لوٹانا ہے ، حوصلےاور ہمت سے اپنا مقدر بنانا ہے ، اور اس دوران اپنی عزت نفس اور وقار کو آلودہ ہونے سے بھی بچانا ہے۔

نظام کے انہدم کے ملبے سے گھبرانے کی بجائےعوام کو نوآبادیاتی آقاؤں کے غلامی کے طوق سے خود کو آزاد کرانا ہوگا۔ یہ ایک کٹھن جدوجہد ہے، لیکن محنت کش عوام جو پسماندہ زندگی گزار نے پر مجبور ہیں ، انھیں سانس لینے کی زیادہ آزادی درکار ہے۔ انہیں ایک باوقار قوم کے طور پر اپنی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنانےکیلئے اس جنگ کا علم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اس جنگ میں مساوات اور ہم آہنگی ہمارے رہنما اصول ہوں ، تاکہ کوئی مقامی یا غیر ملکی قوت ہمارا استحصال نہ کرسکے۔

آئیے ابدی قید کے پرہول سایوں سے باہر نکلیں ، آئیے کھلی فضا میں آزاد انسانوں کی طرح سانس لینا شروع کریں ۔

(صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ہیں)

تازہ ترین