السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
پالیسی پر نظرِثانی
بات کہاں سے شروع کروں، سمجھ نہیں آرہی۔ پوچھنا صرف یہ ہے کہ پاکستان میں کب تک غریب لوگوں کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا، دو فی صد مراعات یافتہ طبقہ آخر کب تک98 فی صد لوگوں کا استحصال کرتا رہے گا۔ میرا اشارہ سنڈے میگزین کے’’رمضان اسپیشل‘‘ اور ’’مدرز ڈےاسپیشل‘‘شوٹس کی طرف ہے۔ رمضان میں بھی ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن یا ہائی کلاس سوسائٹی کے کسی بنگلے میں فیملی فوٹو شوٹ کیا گیا۔
ایسی فیملی، جس کو پتا ہی نہیں کہ رمضان میں غریبوں کا کیاحال ہوتا ہے اور جن خواتین نے وہ شوٹ کروایا، وہ شاید پورا سال اپنے کچن کا منہ بھی نہیں دیکھتیں کہ گھروں میں نوکروں کی فوج جو ہوتی ہے۔ پھر’’مدرز ڈے‘‘ پر بھی ایک ہائی کلاس فیملی ہی کا شوٹ ہوا۔
فیملی نے جو لباس زیبِ تن کر رکھے تھے، اُن ہی سے اندازہ ہورہا تھا کہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ کیا آپ کو پاکستان کے غریب، غرباء نظر نہیں آتے، جو ہمیشہ کسی ایونٹ پر اشرافیہ ہی کوجگہ دی جاتی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ سنڈے میگزین کی اِس پالیسی پر نظرِثانی کریں۔
خیر، 18مئی کی اشاعت میں ’’روشنی کے مینار‘‘ میں محمود میاں نجمی کی حضرت جعفربن ابی طالبؓ سےمتعلق تحریر پڑھ کردل کوسکون ہوا۔ پاک، بھارت تنازعے کے حوالے سے منور مرزا کا تجزیہ بہترین تھا۔ بلاشبہ، بھارت کو ایک سبق سکھانے کی ضرورت تھی اور یہ کام پاک فوج نے بخوبی سرانجام دیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور ٹریفک حادثات پر اہم رپورٹ لائیں۔ اور نئے سلسلے میں ’’میری وفات‘‘ افسانہ پڑھ کر اس بہترین انتخاب پر عرفان جاوید کو سلام پیش کرتا ہوں۔ (محمّد سلام، معرفت مولوی عبدالرزاق موذن مدینہ مسجد، بنگالی کالونی، لطیف آباد، حیدرآباد)
ج: ارے بھئی،’’اشرافیہ‘‘ کو ہمارے شوٹس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ ہم ’’غریب غرباء‘‘ کی مجبوری ہے۔ چوں کہ ہمارے پاس ایسے شوٹس کےاہتمام کے وسائل موجود نہیں، تو عموماً ایسے شوٹس (تمام تر لوازمات کے ساتھ) یہی ’’ایلیٹ کلاس‘‘ ارینج کرتی ہے۔ اگلے شوٹ کے مکمل اخراجات کا انتظام آپ فرما دیں، ہم آپ کے ساتھ کرلیں گے۔
ماں ہے، تو جہاں ہے…
’’ماں، اقوام کی معمار‘‘ کے عنوان سے شائستہ مزاج قلم کار سیّدہ تحسین عابدی نے کیا گوہر تراشا، خصوصاً اُمت کی مائوں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ جیسی روشن مثالوں سے تحریر میں روح پھونک دی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ درد کی دو دوائیں ہوتی ہیں… باپ ہوتے ہیں، مائیں ہوتی ہیں۔ ’’بھارت، خطّے میں امن کیوں نہیں چاہتا؟‘‘ خطّے کے مسائل میں گہری دل چسپی رکھنے والے ریڈار قلم کے حامل، منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت عُمدگی سے رقم طراز تھے۔
سچ یہی ہے کہ پاکستان تو امن کا خواہاں ہے، مگرمودی سرکار کو تو گویا امن سے بیر ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منفرد طرز لکھاری رابعہ فاطمہ نے’’آرٹی فیشل وومب‘‘ جیسے موضوع پر بہترین قلم کشائی کی۔ ’’گھر، گھروندا،ماں پنچھی‘‘ عالیہ زاہد بھٹّی کا شاہ کار تھا۔ بلاشبہ، ایک ماں ہی نسلوں کی آب یاری کرتی ہے۔ ماں ہے، تو جہاں ہے۔ فرحی نعیم بھی جب آتی ہیں، چھاجاتی ہیں، اُن کے مضمون کا عنوان ’’ماں اور ممتا…بےمثل، لاثانی رشتہ معتبر و مستند حوالہ‘‘ ہی آرٹیکل کا حاصل کلام رہا۔
حقیقتاً دنیا کا سب سے پیارا، خالص اور سچّا رشتہ ماں ہی کا ہے۔ اور’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے قوسِ قزح کے جو رنگ بکھیرے، تو ماں کی عظمت ورفعت کو ہزار چاند ہی لگا دیئے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ اِس ظلم کی دنیا میں فقط پیار میری ماں… ہے میرے لیے سایۂ دیوارمیری ماں… نفرت کے جزیروں سے محبّت کی حدوں تک…بس پیار ہے، ہاں پیار ہے، بس پیار میری ماں۔
ڈاکٹر انیلا ذوالفقار، کہکشاں جعفری کے فن پاروں کی نمائش کا احوال سنا رہی تھیں۔ فن پارے بھی شفق کی لالی، چاند کی چاندنی کے مثل لگے۔ ’’انٹرنیشنل نرسز ڈے‘‘ کے حوالے سے ارشد حسین نے عُمدہ قلم آرائی کی۔ فرحین نے بھی اپنے قلم پارے سے معاشرے کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ڈالی کہ واقعتاً درخت ہمارا آکسیجن ٹینک ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے تینوں کردار ہی بے مثال تھے۔’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثانیہ انور کی ’’تھکن‘‘ تو گویا ہمارے اندر اُترگئی۔
کرن نعمان ’’پیوستہ‘‘ کے ذریعے اُمیدِ بہار رکھنے کی تلقین کر رہی تھیں۔ طلعت عمران کے مرتّب کردہ ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘ کی بھی کیا ہی بات ہے۔ پیغامات تتلیوں کے رنگوں سے سجے ملے۔ ماں کیا ہے، بس دُعاؤں کا گھر، جنّت کا دوسرا نام ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس بار رانا محمد شاہد کے نام رہا، بہت بہت مبارک ہو۔
رونق افروز برقی، شمائلہ نیاز کےخطوط بھی دل کو بھائے۔ آخر میں ایڈیٹر اور پوری ٹیم کے لیے ایک زوردار سیلوٹ کہ اس گئے گزرے دَور میں بھی آپ لوگ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ذریعے لوگوں کو محبّت کی ڈور سے باندھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: مفصّل تبصرے، حوصلہ افزائی، ذرہ نوازی کا بے حد شکریہ۔
غائب نہ ہو جائیے گا!!
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں پڑھا کہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کے ایمان افروز خطاب نےمسلمانوں کے لیے حبشہ جیسے پُرامن مُلک کے دروازے کھول دیئے۔ یہ شان دار سفارت کاری کا کیا بے مثال نمونہ تھا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے پہلے شاہ کار افسانے کا درس یہ تھا کہ ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اُس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا، وہ کبھی نہیں بھرے گا، لیکن وہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا۔
دراصل یہی وہ خوش فہمی یا غلط فہمی ہے، جو لوگوں کو فرعون اور نمرود بنا دیتی ہے کہ ’’مَیں ناگزیر ہوں۔‘‘ اب دیکھتے ہیں کہ اگلے انتخاب میں بھی یہ معیار برقرار رہتا ہے یا نہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں نعیم احمد نے بڑی محنت سے پانچ دریاؤں کے سنگم ’’ پنجند‘‘ کا احوال بیان کیا۔
نواب صادق محمّد خان عباسی کی حقوقِ انسانی کی خدمات موجودہ حُکم رانوں کے لیے قابلِ تقلید مثال ہیں۔ ’’یومِ مئی‘‘ سرکاری سطح پر تو محض عام تعطیل، اخباری بیانات اور لفّاظی ہی کا ایک دن ہے، وگرنہ درحقیقت محنت و مشقّت کو اعلیٰ ترین مقام دینِ اسلام ہی نے دیا۔
میری اس جریدے کے توسط سے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ کم ازکم تعلیمی اداروں سے یکم مئی کی تعطیل ختم کردے، تاکہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام، نیز، اپنی تقاریر و خطابات میں علمائے کرام طلبہ اور عوام کو محنت ومشقّت کےاصل معنی ومفہوم، فیوض و برکات سے نہ صرف آگاہ کریں بلکہ سیرتِ پاکﷺ میں موجود اِس کے سچّے وعملی نمونے کی بھی تعلیم دیں۔
’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں عروبہ غزل نے اسماء دمڑ کی یاد تازہ کردی۔ ہماری تو دُعا ہے، جہاں رہیں، خوش رہیں۔ عروبہ غزل سے استدعا ہے کہ وہ اب آتی جاتی ہی رہیں، اسماء کی طرح غائب نہ ہو جائیے گا۔ (سعید احمد خانزادہ، سکرنڈ، ضلع شہید بے نظیرآباد)
ج: ویسے خود آپ کتنے عرصے بعد تشریف لائے ہیں؟؟
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے…
پچھلے کئی برس سےعموماً ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں حاضری سال میں بمشکل ایک آدھ بار ہی لگتی ہے، اس دفعہ یہ دو تین خطوط تک دراز ہوگئی، وجہ ذوالفقار چیمہ کی سرگزشت رہی۔ وہ اپنے آبائی گاؤں ’’کٹھوڑ‘‘ کا ذکر کچھ ایسی محبت سے کرتے رہے کہ دل خوش ہوگیا۔ دوسری طرف قاسمی صاحب کی کہانی بھی ’’جنگ‘‘ میں سلسلے وار کالم کی صُورت چَھپ رہی ہے، وہ بھی اپنے آبائی علاقے’’وزیرآباد‘‘ کا ذکر ایسی ہی محبّت و اُنسیت سے کرتے ہیں، تو بس یہ باتیں دل چُھوگئیں کہ مجھے بھی اپنے آبائی علاقے، ماڑی انڈس سے کچھ ایسا ہی عشق ہے۔
میری بچپن کی سہیلی نے زندگی کے ابتدائی سال وزیرآباد اور کچھ عرصہ ماڑی انڈس میں گزارا، اب وہ کینیڈا میں ہے، مگر ہم مستقل رابطے میں رہتی ہیں، تو قاسمی صاحب جس طرح وزیرآباد کی صُبح و شام کا ذکر کرتے ہیں، میری بھی یادوں میں چھم سے میرا بچپن آجاتا ہے۔ کالونی کا کُھلا کُھلا گھر، صحن، اُس میں بچھی چارپائیاں، ماں باپ، بہن بھائی، سرپر تاروں بھراآسمان، رات میں کسی پہر دریائے سندھ سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، کیا حسین زندگی تھی۔
مَیں آج چالیس، پنتالیس سال بعد بھی، نرم ہوا کے اُن جھونکوں کو محسوس کرتی ہوں، حالاں کہ اب وہ محکمہ، کالونی سب ختم ہوگئے۔ پتا نہیں شاعر نے کیوں کہا؎ یادِ ماضی عذاب ہے یارب… چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ میرے لیے تو میرا ماضی آکسیجن کا کام دیتا ہے۔
جب تنہا ہوئی، چُپکے سے یادوں کی کھڑکی کھولی اور ٹھنڈی ہوائیں آنے لگیں۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ آپ اکثر میگزین کے مندرجات تک محدود رہنے کی تنبیہ کرتی ہیں۔ بہرکیف، ’’آپ کا صفحہ‘‘ ناقابلِ فراموش، پیارا گھر، اِک رشتہ، اِک کہانی، جہانِ دیگر، خودنوشت سب ہی سلسلے من پسند ہیں، خُوب توجّہ سے پڑھتی ہوں۔ اور ہاں، عرفان جاوید جب بھی آتے ہیں، چھا ہی جاتے ہیں۔ (مصباح طیب، سرگودھا)
ج: درست کہا۔ ضروری نہیں، یادِ ماضی ہر ایک ہی کے لیے عذاب ہو۔ کچھ لوگ اس مصرعے کو یوں بھی دہراتے ہیں کہ ؎ یادِ ماضی ’’ثواب‘‘ ہے یارب… بات یہ ہے کہ ہر ایک کے اپنے اپنے تجربات، قصّے کہانیاں، باتیں، حکایتیں ہیں۔
اصل نام اب پتا چلا
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں عرصے بعد، محمود میاں نجمی کی تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’پاک، بھارت تنازعات‘‘ پر تجزیہ شان دار تھا۔ ’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ میں عرفان جاوید ’’میری وفات‘‘ کےانتخاب کے ساتھ تشریف لائے۔ اِن کا آنا ہمیشہ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے ہی کے مثل ہوتا ہے۔ ایک عرصے بعد ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں عروبہ غزل کی ’’ای میل آف دی ویک‘‘ بہت پسند آئی۔ چاچا چھکن کا اصل نام سلیم احمد سلمیٰ ہے، آج پتا چلا۔
اگلے سنڈے میگزین کے’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ایک اور بہتریں، تجزیے کے ساتھ موجود تھے۔ عرفان جاوید کا دوسرا انتخاب ’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ کا حصّہ اول دل چُھو گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا معیار بھی دن بہ دن بلند ہو رہا ہے۔ نظیر فاطمہ کا ’’افسانچہ‘‘بہترین تھا۔
نوشابہ قدوائی چھوٹی سی غزل بھی اچھی لگی۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی ماؤں سے متعلق پیغامات کی تیسری اور آخری اشاعت بھی لاجواب ٹھہری، بہت عُمدہ پیغامات پڑھنے کو ملے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کافی دِنوں بعد مصباح طیّب کا خط پڑھنا بھی اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)
ج: چلیں، کم ازکم چاچا جی کے اصل نام کا معمّا توحل ہوا، وگرنہ تونہ جانے، کیسے کیسے رموز واسرار فاش ہونے کی حسرت ہی رہ گئی۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا، اشاعتِ خصوصی میں رؤف ظفر دو پاکستانی معصوم بچّوں کے منفرد احتجاج کی(اپنے خون سے لکھی تحریر دنیا کے مقتدر اداروں کو ارسال کر کے) رُوداد بیان کر رہے تھے۔ جس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ پاکستان کے مرد و زن ہی نہیں، بچّے بھی فلسطینیوں کے قتلِ عام کےغم میں برابر کے شریک ہیں۔ اے کاش! عالمِ اسلام کے بےحس حُکم رانوں کی بھی آنکھیں کُھل جائیں۔
منور راجپوت بھٹ آئی لینڈ یاترا کا تذکرہ لائے کہ وہاں کی 10ہزار سے زائد آبادی بنیادی ضروریات حتیٰ کہ پانی تک سے محروم ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا فیک نیوز سے پاکستان کو لاحق سنگین خطرات کی نشان دہی کررہے تھے۔
حکومت کو اس معاملے پرفی الفورتوجّہ دینی چاہیے، سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ مُلک دشمنوں کو عبرت حاصل ہو۔’’خودنوشت‘‘میں ذوالفقار چیمہ تین سال بعد واپس آئے، تو وزیرِاعظم نے اُنہیں پھر اہم ذمّے داریاں سونپ دیں۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے اچھا اسکرپٹ لکھا، اشعار کے تڑکا بھی خُوب تھا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں گلنازمحمود ماہر تعلیم، دانش وَر،جمیل جالبی کے علمی کارنامے بیان کررہی تھیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ اچھے انداز سے مرتّب ہوئے۔ اگلے شمارے کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی محنت کی عظمت اور توکل کی حقیقت پر عُمدہ تحریر کے ساتھ آئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ممکنہ ٹریڈ وار میں پاکستان کے کردار کا تجزیہ کر رہےتھے۔
سنڈےاسپیشل میں ڈاکٹر عباسی نے اسلامی افکار میں تشکیلِ نو کی مسدود راہیں کھولنے کے ضمن میں مذہبی نظریات کے ساتھ جدید سائنسی تیکنیکی اصول اپنانے پر زور دیا، جب کہ ڈاکٹر آصفہ شاہد نے ڈاکٹرز کے مسائل کو اس طور ہائی لائٹ کیا کہ گمان ہوا، معاشرے کاسب سے مظلوم طبقہ یہی ہے،حالاں کہ حقیقت برعکس ہے۔
نصرت عباس کہہ رہے تھے، سائنس اور مذہب متصادم نہیں، مختلف ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین نےجاپان میں اسلام اور فلسطین پر دو اہم کانفرنسز کا احوال سنایا۔ سینٹر اسپریڈ کا اسکرپٹ حسبِ معمول خوب تر تھا، اشعارکی چاشنی سونے پر سہاگا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر محب اللہ مصطفیٰ نے دورانِ حج صحت کی حفاظت کے گُر بتائے اور ہمارے صفحے میں رانا محمّد شاہد کی پہلی چٹھی کا نکھار نظر آیا، تو خادم ملک سے آپ کو پہلی بارمتفق پایا۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: محترم! پانچوں انگلیاں برابرنہیں ہوتیں، سو، تمام معالجین کے لیے ایک سی سوچ رکھنا قطعاً غلط ہے۔ اِس مُلک میں خصوصاً ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ جو ظلم وزیادتی ہورہی ہے، ہم اُس کے چشم دید گواہ ہیں اوراِس کا ادراک آپ کو تب ہی ہوسکتا ہے، جب آپ کا اپنا کوئی بچّہ یا بچّی ان تکلیف دہ حالات کا شکار، کٹھن مسائل سے نبرد آزما ہو۔ اور… ہم خادم ملک سے متفق ہو سکتے ہیں، تو آپ کو تو ہر صُورت ہم سے اتفاق کرنا ہی چاہیے۔
* سال نامہ2025 ء قلم کاروں کی محنت اور آپ کی پُرخلوص سیادت کا اِک حسین امتزاج تھا۔ شاباش!’’آپ کا صفحہ‘‘ کے سالانہ دربار میں بندے کو یاد رکھنے کا بہت شکریہ۔ رسالہ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں اور اِن شااللّہ جلد شاملِ بزم بھی ہوں گا۔ شائستہ اور شاہ زادے کو بزمِ نگاراں لُوٹنے پہ مُبارکاں، دیگرنامہ نگاروں کو بھی رونقِ بہاراں بحال پر خراجِ تحسین۔ (محمّد سلیم راجا، لال کرتی، فیصل آباد)
ج: آپ کی واپسی ای میل کی اشاعت سے قبل ہی ہوچُکی ہے۔ سو، دوبارہ خوش آمدید۔
* والد کی یاد میں لکھی گئی میری تحریر میگزین میں شائع ہوئی۔ ایک دوسری تحریر بعنوان ’’احساسِ سُود و زیاں‘‘ بھی ارسال کی تھی۔ براہِ مہربانی بتا دیں، قابلِ اشاعت ہے یا نہیں۔ (روزینہ خورشید)
ج: جریدے کا باقاعدگی سے مطالعہ جاری رکھیں، کسی بھی تحریر کی اشاعت، عدم اشاعت کا علم آپ کو اسی سے ہوگا۔
* جب سے ہوش سنبھالا ہے ’’آپ کا صفحہ‘‘ بہت ذوق و شوق سے پڑھ رہی ہوں۔ سو، ہر اتوار سنڈے میگزین کا بےصبری سے انتظار رہتا ہے۔ آپ کے لیے ڈھیروں دعائیں۔ (بنتِ اشفاق، لاہور)
ج: ویسے یہ ہوش کب سنبھالا گیا تھا؟ کیوں کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ ہمیں خُود ہوش سنبھالے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ کا تازہ شمارہ حسبِ معمول معلومات کا خزانہ تھا۔ خاص طور پر لیاقت بلوچ کے مضمون میں گویا دریا کو کُوزے میں سمو دیا گیا۔ دوسرا اہم موضوع ’’ذیابطیس اور رمضان‘‘ تھا، جس سے سیرحاصل معلومات حاصل ہوئیں۔
ڈاکٹر شکیل احمد نے متعدد غلط فہمیاں دور کیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم اور فرحی نعیم کی کاوشیں کمال تھیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر تو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ڈائجسٹ میں ’’ت اور ت‘‘ کا جواب نہ تھا۔ روبینہ یوسف نے کمال لکھا۔ اور آپ کا صفحہ تو پھر اپنا ہی صفحہ ہے۔ ( بلقیس متین، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk