السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
چالاک ہوگیا ہوں!
اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ دونوں میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود نہیں تھے۔ ایک درخواست ہے کہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کبھی ڈراپ نہ کیا کریں۔ ’’بلوچستان کی قومی شاہ راہیں، خونی شاہ راہوں میں تبدیل‘‘، اللہ پاک اپنا کرم فرمائے۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خُود نوشت‘‘ بھی اختتام کو پہنچی۔ محنت کشوں کا عالمی دن اور مزدوروں پر چلنے والی گولیوں کی گونج پوری دنیا میں سُنی گئی، بلاشبہ مزدوروں پر ہر دَور میں زمین تنگ ہی رہی ہے، حکومت نے کم سے کم تن خواہ 37 ہزار روپے رکھی ہے، مگر پرائیویٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور پندرہ سے بیس ہزار روپے مشاہرے پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
’’جاپان کی خوش حالی میں پاکستان کے لیے پوشیدہ اسباق‘‘ بہترین مضمون تھا۔ ’’پاکستان سُپرلیگ کے شان دار دس سال‘‘ کے ذریعے اہم معلومات دی گئیں۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں نام وَرفن کار، ڈراما نویس جاوید جمال کی کھٹی میٹھی باتیں مزہ دے گئیں۔ میرا خط شائع فرمانے کابےحد شکریہ۔ سید زاہد علی اور شہزادہ بشیر محمد نقش بندی کو میری ’’سنہری باتیں‘‘ پسند آئیں، اُن دونوں کا بھی شکریہ۔
اس بار تو اعتراض ملک نے بھی اپنے خط میں کوئی بونگی نہیں ماری، خاصی حیرت ہوئی۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات تو مَیں میگزین سے الگ کرکے ہی رکھ دیتا ہوں کہ کہیں بیگم کی نظر پڑگئی اور کسی پہناوے کی فرمائش کردی، تو میری تو ایک ماہ کی تن خواہ گئی۔ شاید ’’اسٹائل‘‘ کی تحریریں ہی پڑھ پڑھ کرچالاک ہوگیا ہوں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ کی چالاکی یا کنجوسی میں ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ کا کیا عمل دخل؟ وہاں تو خواتین کو ملبوسات خرید کردینے کی تحریک دی جاتی ہے، نہ کہ ان سے جریدہ ہی چُھپا لینے کی۔ ایسی چالاکیاں عموماً مَردوں کے اپنے ہی ذہنوں کی اختراع ہوتی ہیں۔ چلیں خیر ہے ، اعتراض ملک کی کسرآپ نے خُود پوری کرلی۔
صُبح وشام جریدے کے سنگ
اتوار کی خُوب صُورت صُبح یا سُرمگیں شام عموماً ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کے سنگ گزاری جاتی ہے۔ اور جریدے کے ساتھ یہ وقت کتنا اچھا گزرتا ہے، کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔ کم ازکم چھوٹے شہروں، قصبوں یا دیہات میں رہنے والوں کے لیے تو یہ میگزین بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ (شری مُرلی چندجی گوپی چند گھوگلیہ، شکارپور)
پیدائشی مسلمان ہونے کا زعم
سرِورق پر سوہنی، مَن موہنی مورت دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ ڈاکٹرحافظ محمّدثانی کا مضمون ’’محنت کی عظمت‘‘ اور توکل‘‘ کے موضوع پر تھا۔ عُمدہ مثالوں سے تحریر کو چار چاند لگ گئے، پڑھ کرایمان تازہ ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی اسلامی افکار پر بہت خُوب صُورتی سے روشنی ڈال رہے تھے، سچ تو یہ ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا بالکل دھیان نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل جاپان میں اسلام کے بڑھتے اثر ونفوذ کا تذکرہ کررہے تھے۔
ہمارا تو تجربہ ہے کہ نومسلم ہم سے اچھے مسلمان ثابت ہوتے ہیں کہ ہمیں تو پیدائشی مسلمان ہونے کا زعم ہی لے ڈوبا ہے۔ آپ نے تحریر میں خاور احمد کا جو شعر نقل کیا ہے کہ ؎ ساجن کی یادیں بھی خاور کن لمحوں میں آجاتی ہیں… گوری آٹا گوندھ رہی تھی، نمک ملانا بھول گئی۔ قسم سے، پڑھ کے لُطف آگیا۔ حافظ حسین احمد کی باتیں، حاضر جوابی کے قصّے بار بار پڑھے۔
خطوط کا صفحہ حسبِ روایت خوب ہے۔ اگلے جریدے کی ماڈل کو بھی اللہ نظرِ بد سے بچائے، بھول پن، معصومانہ ہنسی دل لُوٹ لے گئی۔ اسرار ایوبی کا مضمون معلوماتی تھا، کتب پر تبصرہ لاجواب رہا۔ اختر سعیدی کی خدمت میں سلام، سیّدہ تحسین عابدی سندھ کے سیلاب زدگان کے لیے مکانات کا مژدہ سُنا رہی تھیں۔ سخاوت علی جوہر کی غزل خُوب تھی، اور نامہ نگاروں کی طبع آزمائی کے تو کیا ہی کہنے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّرگڑھ)
ج: پیدائشی مسلمان ہونا یقیناً باعثِ فخر ہے، لیکن صرف مسلمان ہونا نہیں، باعمل مسلمان ہونا۔
اُچھل اچُھل کر بُرا حال
’’خوش رہیں، غصّہ نہ کریں‘‘ جیسے مضامین پڑھنے میں کافی اچھے لگتے ہیں، لیکن آپ خُود بتائیں، موجودہ حالات میں بھلا کوئی بھی کیسے خوش رہ سکتا ہے، غصّے سے گریز ممکن ہی نہیں، خصوصاً کراچی کی سڑکوں کا جوحال ہے، آپ منگھوپیر روڈ کی حالتِ زار دیکھیں تو روپڑیں۔
ہم رکشے پر سفر کرتے ہیں، تو ہمارا اُچھل اُچھل کر بُرا حال ہوجاتا ہے اور پھر جب ہمارے خطوط کی ایڈیٹنگ ہوتی ہے، ہماری تجاویز پرعمل درآمد نہیں ہوتا، ہمیں ماڈلنگ کا موقع نہیں ملتا (جب کہ ہم گزشتہ پانچ سال سے ایک ہی جوڑے اور کُھسّے پر گزارہ کر رہے ہیں) تو شدید غصّہ آتا ہے۔
نیز، شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی صُورتِ حال اور ٹیکسز کی بھرمارکےساتھ بھی کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ ہم تو بھئی، تب ہی خوش رہ سکتے ہیں، جب حکومت ہمیں پندرہ کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کرے۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: آپ نے ایسا کون سا تیر مارا ہے کہ حکومت آپ کو 15کروڑ روپے دینے کا اعلان کرے۔ اگر رکشے پر اُچھل کُود ہی کو آپ اپنا بڑا کارنامہ سمجھ رہے ہیں، تو پھر کراچی کی اسّی، نوّے فی صد آبادی اِس انعام کی مستحق ہے، جب کہ ہمارے خیال میں تو پورے شہر بلکہ پورے صوبے کو موہن جودڑو بنانے کا سہرا، چوں کہ سندھ حکومت کے سر ہے، تو انعام کی اصل مستحق، جائز حق دار تو وہ ہے۔
دل کش تحفہ
اِس بار بھی دو شماروں پر تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ پہلا شمارہ ’’مدرز ڈے اسپیشل‘‘ تھا۔ سرِورق، اسٹائل کے صفحات اور زیادہ تر مضامین ماں جیسی ہستی کےگرد گھوم رہے تھے۔ ’’ماں، اقوام کی معمار‘‘ اور ’’آرٹی فیشل وومب‘‘ منفرد نگارشات لگیں۔ ’’امن، ہمارا اصول، دفاع ہمارا فرض‘‘ عنوان ہی بہت شان دار تھا اور مضمون بھی لاجواب رہا۔ ’’پاک، بھارت تنازعات: وار ڈپلومیسی ناگزیر‘‘ ہمیشہ کی طرح بہترین تجزیے کے معیار پر پورا اُترا۔
آپ نے ایک نیا نکور سلسلہ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے عنوان سے شروع کیا اور اس سلسلے کے لیے عرفان جاوید نے محمّد اظہار الحق کے افسانے ’’میری وفات‘‘ کا انتخاب کیا۔ واقعتاً بہت ہی دل چسپ، سبق آموز نگارش تھی۔
اُمید ہے، یہ نیا سلسلہ بھی عرفان جاوید کے سابقہ سلسلوں کی طرح ایک دل کش تحفہ ثابت ہوگا۔ پنجند کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا ہے، مگر خواہش کے باوجود ابھی تک یہ مقام دیکھ نہیں سکے۔ زندگی رہی، تو ان شاء اللہ اگلے سال ضرور دیکھیں گے۔ میرے خطوط شمارے کی زینت بنانے کا بہت بہت شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: قارئین نے عرفان جاوید کے سابقہ تمام سلسلوں پر ہمیشہ ہی ازحد پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اُمید ہے، نیا سلسلہ بھی اُن کی توقعات پر پورا اُترے گا۔
اُن ہی کی بدولت ہوں
میگزین کا تازہ شمارہ دیکھا، دل کو بہت بھایا۔ آپ یقین کریں، مجھے ہر ہفتے میگزین کا بڑی بےصبری سے انتظار رہتا ہے۔ تازہ شمارے میں محمود میاں نجمی کی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ سے متعلق ایک دل افروز تحریر پڑھی، بخدا ایمان کو تازگی مل گئی۔ دیگر سلسلوں میں منور مرزا کی تحریر ’’پاک بھارت تنازعات، وار ڈپلومیسی‘‘ بہترین، شان دار تھی۔ بلاشبہ مرزا صاحب کے خِرد افروز تجزیات قوم کی رہنمائی میں خاصے معاون ثابت ہورہے ہیں۔
سیّدہ تحسین عابدی کی تحریر ’’امن ہمارا اصول، دفاع ہمارا فرض‘‘ بہت ہی اچھی کوشش تھی۔ عابدی صاحبہ سندھ حکومت کی ترجمان ہوکر آپ کی ٹیم میں شامل ہوگئی ہیں، بڑی بات ہے۔ ’’اسٹائل بزم‘‘ بھی حسبِ روایت باکمال رہی۔ مزدوروں کا عالمی دن، یکم مئی کو پوری دنیا میں خُوب جوش وجذبے کے ساتھ منایا گیا اور اِسی مناسبت سے’’سنڈے میگزین‘‘ نے بھی بےمثال تحریروں کی اشاعت سے اپنا حق ادا کردیا۔
حکومتِ وقت کو بھی دعووں، وعدوں کے برعکس کچھ عملی اقدامات پر غور کرناچاہیے۔ چاچا چھکن سے متعلق ایک بار پھر عرض کردوں کہ وہ میرے وہ استاد ہیں، جنہوں نے انگلی پکڑ کر مجھے چلنا، لکھنا، پڑھنا سکھایا اور آج مَیں جو تھوڑا بہت لکھ، پڑھ لیتا ہوں، یہ اُن ہی کی بدولت ہے۔ (اسلم قریشی، آٹوبھان روڈ، ٹھنڈی سڑک، حیدرآباد)
ج: آپ نے توچاچا چھکن کے حدود اربع، رابطہ نمبر سے لے کر حالاتِ زندگی تک سب ہی کچھ لکھ بھیجا، جو بہرحال ایڈٹ کرنا پڑا کہ ہمیں اُن پر پی ایچ ڈی تھوڑی کرنی ہے۔ ہاں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ اپنے استاد کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں، اُن کی محنت و ریاضت کے معترف ہیں۔ ہر طالب علم کے اپنے اساتذہ سے متعلق ایسے ہی جذبات و احساسات ہونے چاہئیں۔
دیسی ملتانی جُوتا یا کھسّے
25 مئی کا رسالہ موصول ہوا، طویل انتظار کے بعد میرا خط بھی شاملِ اشاعت تھا۔ ’’ٹائٹل‘‘ اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر دوشیزہ (ماڈل) پریا بٹ خُوب چھائی ہوئی تھیں۔ یوں کہیے، پنجابی فلموں کی ہیروئن انجمن کی یاد تازہ ہوگئی۔ حسین پیراہنوں کے ساتھ ماڈل کےحُسن پر تبصرہ نہ کرنا کنجوسی ہوگی۔ کشادہ پیشانی، غزالی آنکھیں ستواں ناک، سُچّے گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ اور موتی جیسے دانت۔
بس، ہیل والے جوتوں کے بجائے اگر دیسی ملتانی جُوتی یا کھسّے کا انتخاب کیا جاتا تو حُسن کو چار چاند لگ جاتے۔ آپ کی تحریر کے بھی کیا کہنے، حسبِ معمول لاجواب تھی۔ مجموعی طور پر شمارے کی تمام ہی تحریریں بہترین رہیں، خاص طور پر شمیم اختر کی تحریر ’’آپریشن بنیان مرصوص، بھارتی جارحیت کا دندان شکن جواب‘‘ تو شمارے کے ماتھے کا جھومر ٹھہری۔
مرزا علی رہبر کی جے ایف۔ 17 تھنڈر پر لکھی نظم بھی فن کا شاہ کار تھی، ونگ کمانڈر (ریٹائرڈ) محبوب حیدر سحاب کی نظم پوری قوم کے دلی جذبات کی عکاسی کررہی تھی۔ نئے سلسلے نے دل خوش کردیا۔ عندلیب زہرا کی تحریر ’’ساس بھی ماں بن سکتی ہے‘‘ بہت پسند آئی۔ روبینہ شاہد نے پودینے کے بےبہا فوائد گنوائے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اعزازی چٹھی کی مسند پر شہزادہ بشیرمحمد نقش بندی براجمان پائے گئے۔ (محمّد صفدر خان ساغر، مکی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: آپ براہِ مہربانی ماڈلز کے حُسن پر تبصروں کے ضمن میں کنجوسی ہی برتا کریں، اِس معاملے میں کسی کو آپ کی فراخ دلی کی کوئی حاجت نہیں۔ ویسے ہمارےخیال میں تو ماڈلز کو ہائی ہیلزہی پہننی چاہئیں کہ یہ بوقتِ ضرورت کچھ شوقین مبصّرین کی تواضع کے کام بھی آسکتی ہیں۔
فی امان اللہ
اللہ کرے، آپ کی میزبانی میں یہ بزم سدا یوں ہی سجتی سنورتی، چہکتی مہکتی رہے۔ ہم تو اِس خُوب صُورت بزم میں بس گھڑی بھر ہی کے مہمان ٹھہرتے ہیں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں خط لکھتے ہوئے دِل ودماغ، ادب آداب کے ساتھ حاضر رکھنے پڑتے ہیں، مبادا کوئی ایک آدھ جملہ معیار سے کم ترلکھ دیا، تو پھر تو ایسا کرارا جواب ملے گا کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ سچ کہوں تو آپ کی تحریر میں محبت و احترام اور شیرینی بھی بہت ہے لیکن قلم کی کاٹ بھی بہت تیز ہے۔
گھر میں سنڈے میگزین آتا ہے، تو سب سے پہلے بندۂ ناچیز ہی درشن کرتا ہے اور پہلے صفحے کے بجائے آخری صفحہ کھول کر دیکھتا ہے۔ سب سے پہلے ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا بغور مطالعہ کرتا ہوں، پھر دوسرے خطوط پڑھتا ہوں۔ ظہیر الدین کی تجویز بہت اچھی تھی کہ مختلف عنوانات (اِک رشتہ، اِک کہانی، ڈائجسٹ، متفرق اور خودنوشت وغیرہ) کے تحت شائع ہونے والی بعض منتخب تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔
نیز، یہ بات بھی دل کو لگتی ہے کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ خطوط نویسی جیسی دم توڑتی روایات کے احیاء کا سبب ہے۔ بلاشبہ بندۂ ناچیز کو بھی اس صفحے کے ایک کونے میں قارئین کو حُسنِ اخلاق سے مخاطب کرنے ہی پرخط لکھنے کی تحریک ملی۔ پرنس آغا خان سے متعلق جان کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے قیام پاکستان کےضمن میں لائقِ تحسین کوششیں کیں اور تحریکِ پاکستان میں اُن کا بنیادی کردار تھا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی اُردو زبان و ادب سے متعلق کاوشوں کا بھی علم ہوا۔ یہ بات سو فی صد سچ ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے تیز و تند سیلاب کی طرح بڑھتے ہوئے رجحان سےوطنِ عزیزکی سلامتی و استحکام کو سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اگر اِس کا فوری تدارک نہ کیا گیا، تو لوگ انہیں وحی و الہام کی طرح مان کر آگے شیئر کرتے چلے جائیں گے۔ پرنٹ میڈیا کو زندہ رکھنے کے لیے سب کو مل کے کوشش کرنی ہوگی۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خودنوشت‘‘ بڑے دل چسپ مراحل سے گزر کر آگے بڑھی۔ چیمہ صاحب ہمارے ضلع شیخوپورہ میں بھی کچھ عرصہ تعینات رہے اور یہاں جرائم کے خاتمے میں اُن کا بطور اعلی پولیس آفیسر بڑاشان دار، یادگار کردار تھا۔
یہاں کے لوگ آج بھی انہیں اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ بھٹ آئی لینڈ ایک تاریخی قومی وَرثہ ہے، اس سے متعلق پہلی بارعلم ہوا۔ الغرض، ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مطالعہ کرکے بڑی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ذہن کو تازگی ملتی ہے، وگرنہ نصابی کتب پڑھ پڑھ کر تو بندہ تھک ہی جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا ہے کہ اپنے فرائضِ منصبی دل و جان سے ادا کرنے کا ذوق و شوق رکھنے والوں کو صحت و تن درستی و عافیت اور خوش حال زندگی عطا فرمائے۔ (حافظ عُمر عبدالرحمٰن، ہرن مینار روڈ، شیخوپورہ)
ج: عمومی طور پر بھی ’’بندۂ ناچیز‘‘ کو محتاط ہی رہنا چاہیے اور اگر کسی کی یہ تربیت اِس بزم سے ہورہی ہے، تو یہ تو گویا جریدے کی وردی پر ایک اور پھول لگ گیا۔
* آج کے دَور میں جب کُتب بینی کا رواج نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، جنگ، سنڈے میگزین اب بھی بڑے وقار کے ساتھ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے ضمن میں کوشاں نظر آتا ہے۔ بہت اُجلی، معیاری تحریریں آپ کے جریدے کا خاصّہ ہیں۔
اگرچہ صفحات کی تعداد، میگزین کے سائز میں نمایاں کمی آگئی ہے، لیکن اس کے باوجود قارئین کی پسند کا حتی الامکان خیال رکھا جاتا ہے۔ دُعا ہے کہ قاری اور جریدے کا یہ رشتہ قائم و دائم رہے اور آپ کی جوابات دینے کی طاقت دن دُونی، رات چوگنی ترقی کرے۔ (رخسانہ شکیل، کراچی)
ج: واہ! کیا دُعا فرمائی ہے آپ نے۔ ساتھ ہی یہ دُعا بھی مانگ لیتیں کہ یہ ’’طاقت‘‘ کبھی آپ پر آزمانے کی نوبت نہ آئے۔
* آج ’’سنڈے میگزین‘‘ کے سرِورق پر، کچھ زیادہ ہی خُوب صُورت ماڈل نظر آگئی۔ اور پھر ایڈیٹر صاحبہ کے شاعرانہ رائٹ اَپ نے تو جیسے اُس کے حُسن کو چار چاند لگا دیئے۔ ’’اپنے پیاروں کے نام پیغامات‘‘ میں اپنا نام دیکھ کر خوشی میں اُس دوست کو بھی مٹھائی کِھلائی کہ جس کے نام پیغام بھیجا تھا۔ (ثناءاللہ سید)
ج: دوست کی تو پھر عید ہی ہوگئی، پیغام بھی، مٹھائی بھی۔
* سخت افسوس ناک امر ہے کہ غیر مسلم ممالک کی نسبت مسلمان ممالک میں بد امنی اور خانہ جنگی کی کیفیت زیادہ نظر آتی ہے۔ افغانستان، ایران، عراق، شام، لبنان، یمن، صومالیہ، سوڈان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ دراصل آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاد و شہادت کی ایک درست، جامع تعریف مرتّب کی جائے اور اُس تعریف کو معاشرے کے ہر فرد پرنافذ بھی کیا جائے۔
ایک زمانے میں افغان مجاہدین کو اللہ کے سپاہی کہا جاتا تھا اور آج اُنہی مجاہدین کے شر سے بچنے کے لیے پاک فوج کو بار بار ملٹری آپریشنز کرنے پڑ رہے ہیں۔ جب تک ظالم اور مظلوم کے بیچ ایک واضح لکیر نہیں کھینچی جائے گی، تب تک حق وناحق کا قضیہ نمٹنا مشکل ہے۔ (محمّد کاشف، کراچی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk