عکّاسی: رابرٹ جیمس
موسیقی کے دیگر آلات کے مقابلے میں ڈھول واحد انسٹرومنٹ ہے، جس کی اُٹھان فوری اور اثرات بھی گہرے ہیں۔ پھر یہ کہ یہ سُننے والوں کو دہوش نہیں کرتا، سُلاتا نہیں، جگاتا ہے۔ اِس سے بدن تھکتا نہیں، اَنگ اَنگ کُھلتا ہے۔ یہ نزاکتوں کا نہیں، طاقت کا تفاخر پیدا کرتا ہے۔
اس کے ذریعے اپنی آواز ہوا کے دوش پر دُور دُور تک پہچائی جاسکتی ہے۔ ایک زمانے میں عوام تک سرکاری احکامات پہنچانے کے لیے ڈھول ہی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے بلوچستان کی ریاستِ قلّات میں سرکاری حکم نامہ سُنانے کے لیے کسی چوک پر ڈھول بجایا جاتا،جس پر وہاں لوگوں کا مجمع لگ جاتا۔
پھر ڈھول بجانے والا ڈھولچی یا اُس کے ساتھ موجود شخص اونچی آواز میں حُکم نامہ پڑھ کر سُناتا۔ مختلف شہروں میں بلدیاتی ادارے بھی پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی یا تجاوزات وغیرہ کے معاملات سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے یہی تیکنیک استعال کیا کرتے تھے اور شاید اب بھی کئی علاقوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، تاہم اب ڈھول کی جگہ مائیکرو فون نے لے لی ہے، جس کے ذریعے اعلانات کیے جاتے ہیں۔
ایک زمانے میں یہ ڈھول بجانے والے، روزہ داروں کو سحری کے لیے جگانے کا بھی کام کرتے تھے، لیکن یہ کام اب موبائل فون الارم سے لے لیا جاتا ہے۔باقی مُلک کی طرح بلوچستان میں بھی ڈھول بجا کر اپنا گزر اوقات کرنے والے اِن دنوں سخت پریشانی سے دوچار ہیں کہ اب اِس شعبے کی طرف عوام کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر خوشیاں دوبالا کرنے میں پیش پیش ڈھول بجانے والے فن کار، اب بے گانگی اور لاتعلقی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ماضی میں شادیوں اور دیگر سماجی، ثقافتی تقاریب میں ڈھول بجانے والوں کی شرکت لازمی تصّور کی جاتی تھی۔ کوئٹہ شہر میں ان کی خیمہ بستیاں تھیں، جب کہ وہ سردی اور گرمی کے موسم کے لحاظ سے ایک سے دوسرے شہر نقل مکانی بھی کرتے رہتے تھے۔ شادیوں کے علاوہ کھیلوں کے مقابلوں اور میلوں ٹھیلوں میں شرکت سے جہاں ایک طرف عوام کو خوشیاں اور تفریح میسّر آتی، وہیں ڈھول بجانے والوں کی دال، روٹی کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ مختلف علاقوں کی چھاپ پارٹیاں(رقص پارٹیاں) مقابلوں کا اہتمام کرتی تھیں۔
ایسی بعض ٹولیاں ڈھول کی آواز سُن کر یا کسی تقریب کا علم ہونے پر بن بُلائے بھی پہنچ جاتیں اور وہاں ڈھول والوں کی موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ناچ گانے کا شوق پورا کرلیتیں۔ اِس طرح کی بِن بُلائے شرکت پر میزبان ناراض ہونے کی بجائے اُلٹا خوشی کا اظہار کرتے۔ رات رات بھر ڈھول بجایا جاتا اور رقص جاری رہتا، کوئی تھکنے کا نام نہ لیتا۔ پردے کے پیچھے موجود خواتین کی طرف سے بُلاوا آتا، تو ڈھول والے اُس جانب جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے، یوں ساری رات اُن کی آنیاں جانیاں لگتی رہتیں۔
اِس دَوران لوگ اپنے ہاتھوں میں پکڑے کرنسی نوٹ مختلف افراد کے سَروں سے گھما کر ڈھول والوں کو دیتے جاتے۔ طے پانے والے معاوضے کے ساتھ، یہ رقم بھی(جسے سرگشت کہا جاتا ہے)، اُن کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔اِن محافل میں لوگ ہوا میں پیسے اُچھالتے، تو وہاں موجود بچّے اُنھیں لُوٹنے کے لیے ٹوٹ پڑتے۔شادی کی تقاریب عموماً تین روز تک جاری رہتی اور اس دوران ڈھول بجانے والے بھی وہیں موجود رہتے۔
کوئٹہ شہر میں’’سردار بینڈ‘‘ کے نام سے محمّد بشیر نامی شخص کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا اور لوگ اُنھیں اپنی تقریبات میں مدعو بھی کیا کرتے تھے، لیکن اب اُن کے انتقال کے بعد یہ بینڈ گروپ ختم ہوچُکا ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب اِس طرح کے بینڈز کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے اور اِن سے وابستہ افراد نے کوئی دوسرا ذریعۂ معاش تلاش کرلیا ہے۔ آج کل تقریبات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے یا پھر لاکھوں روپے معاوضہ دے کر’’بڑے ناموں‘‘ والے فن کار مدعو کیے جاتے ہیں اور یوں مقامی فن کار ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔
کبھی کبھار، برائے نام کسی ایک آدھ فن کار کو معمولی معاوضے پر بُلا کر بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ فلاں ادارہ یا شخصیت، مقامی فن کاروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اِس طرح کے نمائشی اقدامات سے یہ گھاگ افراد بدحال مقامی فن کاروں کے نام پر اچھے خاصے فنڈز بھی اینٹھ لیتے ہیں، جن میں سے اِن فن کاروں کو ایک دھیلا تک نہیں ملتا۔ صوبے سے باہر ہونے والی بڑی تقریبات میں اکثر بلوچستان کے فن کار نظرانداز کیے جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ مقامی ڈھولچیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔اِن کی کسم پُرسی کا یہ عالم ہے کہ اب وہ اور اُن کے بچّے گلے میں ڈھول لٹکائے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ مختلف علاقوں یا گلی محلّوں میں جاکر ڈھول بجا کر کچھ پیسے جمع کرلیا کرتے تھے، مگر اب اکثر علاقوں میں وہاں مامور چوکیدار اُنہیں اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔
پہلے سبّی میلے سمیت مختلف تقریبات میں بینڈز اور ڈھول بجانے والے شریک ہوکر عوام میں خوشیاں بانٹتے تھے، لیکن امن و امان کی مخدوش صُورتِ حال کے سبب اب ایسی تقریبات بھی خاموشی سے ہو رہی ہیں اور سخت حفاظتی انتظامات کے پیشِ نظر ان میں عوامی شرکت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
جہاں حالات نے پلٹا کھایا ہے، وہیں عوامی تقریبات کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ فن کاروں کی براہِ راست شرکت کی بجائے اب شادیوں اور دیگر گھریلو و نجی تقریبات میں ٹیپ ریکارڈرز سے کام چلایا جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ کھیلوں کے ٹورنامنٹس میں ڈھول والے ضرور بُلائے جاتے تھے، مگر اب یہ روایت بھی دَم توڑ چُکی ہے۔
وہاں بھی ڈیک پر گانے چلا دیئے جاتے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور ثقافتی ادارے تو ویسے ہی برائے نام رہ گئے ہیں کہ وہاں باقی فن کاروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ڈھول والوں کو کون خوش آمدید کہے گا۔ اِن دنوں لاہور سے تعلق رکھنے والی بعض ڈھول بجانے والی خواتین خاصی مقبول ہیں اور اُنہیں بیرونِ ممالک جانے والے فن کاروں کے وفود میں بھی شامل کیا جاتا ہے، جو ایک اچھی بات ہے، لیکن بلوچستان کے ڈھول بجانے والے کسی بھی وفد میں شامل نہیں ہوتے اور اس بے اعتنائی اور تخصیص کو بہرحال یہاں بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔
لوک وَرثہ سمیت دیگر قومی اداروں کو اِس طرف توجّہ دینی چاہیے تاکہ یہ فن زندہ رہ سکے۔ پھر اِن جُھگی نشینوں پر اب وہ زمین بھی تنگ ہو رہی ہے کہ جہاں ان کا پڑائو ہوتا تھا، کیوں کہ وہاں پلازے، مالز، مارکیٹس اور نئی آبادیاں بن رہی ہیں۔ اِس وقت محکمۂ ثقافت، بلوچستان کے ویلفیئر فنڈ میں چند ایک ڈھول بجانے والے شامل ہیں، حالاں کہ دیگر فن کاروں کی طرح ان کی بھی مکمل تعداد کو شامل کیا جانا چاہیے تھا اور اِس مقصد کے لیے مختص فنڈز میں اضافے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
نیز، ضلعی اور ٹاؤن سطح پر فن کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اِس ضمن میں بلوچستان آرٹس کاؤنسل کی فعالیت بے حد ضروری ہے، جب کہ ادارۂ ثقافت اور آرٹس کاؤنسل کی برانچز ضلعی اور ڈویژنل سطح پر بھی قائم کی جانی چاہئیں۔
اِسی حوالے سے ایک ڈھولچی، محمّد جان نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’صوبے میں ڈھول بجانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے عروج کا زمانہ تھا، تب بھی وہاں تک رسائی نہیں دی جاتی تھی، اب وہاں کون پوچھتا ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے استاد، بدل خان کو ایک ثقافتی وفد کے ساتھ امریکا جانے کا موقع ملا تھا۔ اُس وقت غالباً عبداللہ بلوچ آرٹس کاؤنسل کے ڈائریکٹر تھے۔
اُس زمانے میں کبھی کبھار لوک وَرثہ میں کسی ایک آدھ کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع مل جاتا تھا۔ ہمارے بزرگ ڈھول بجانے کے علاوہ کاشت کاری کے اوزار و دیگر آلات بنانے کے ماہر تھے، لیکن جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ان کا کام بھی بے حد متاثر ہوا ہے۔ پھر یہ کہ بلوچستان میں کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ہر قسم کی ہنر مندی کو زنگ لگ رہا ہے، ہمیں ذریعۂ معاش کا معاملہ در پیش ہے، اِس لیے ڈھول بجا کر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔
ہمارے بچّے لوگوں کے جوتے پالش کرنے کے لیے تھیلے میں برش، پالش ڈالے شہر میں گھومتے پِھرتے ہیں، مگر اب حجام کی دُکانوں کے سامنے یا دیگر مقامات پر جوتے پالش کروانے کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ اکثر نوجوان معاشرتی رویّوں اور عدم توجّہی کا شکار ہیں۔ حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ ہمیں روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ آخر ہم جُھگی نشینوں کے بچّوں کو تعلیم کون دے گا، ہم تو سرکاری اسکولز کی معمولی سی فیس تک نہیں دے سکتے، تو اپنے بچّوں کو نجی اسکولز میں بھیجنے کا کیسے سوچ سکتے ہیں۔‘‘
علی بخش بھی ڈھول بجاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’صبح سے شام تک ڈھول لیے اہم شاہ راہوں پر گاہکوں یا کسی بُکنگ کرنے والے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ گھر لَوٹ جاتے ہیں۔ ہمیں بھیک مانگنے کی عادت بھی نہیں ہے اور نہ ہی ہم اِسے اچھا سمجھتے ہیں، تو سمجھ نہیں آتا، اب گزر بسر کیسے کریں کہ ہم تو اپنے اِس ہنر ہی کے ذریعے کمانا چاہتے ہیں۔‘‘
صوبے میں کئی ثقافتی ادارے قائم ہیں، جنہیں کم یا زیادہ، فنڈز بھی بہرحال ملتے ہیں، لیکن لگتا یہی ہے کہ انہوں نے فن کاروں کی سرپرستی سے ہاتھ اُٹھالیا ہے۔ خاص طور پر اِن ڈھول بجانے والوں کا تو کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا بَھر میں اپنی اپنی تہذیب و ثقافت بچانے اور اُن کے تحفّظ کی تحریک بڑھتی جا رہی ہے، ہمارے ہاں اِس سے پہلو تہی نہ صرف ایک قابلِ افسوس امر ہے، بلکہ یہ مجرمانہ غفلت بھی ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت کے ایک اہم حصّے، ڈھولچیوں پر توجّہ دینی ہوگی تاکہ یہ روایتی فن اور اس سے وابستہ افراد مسائل کی دلدل سے نکل سکیں۔
اِس ضمن میں ڈھول بجانے والے فن کاروں کی فوری رجسٹریشن کرکے اُن کے لیے معقول معاوضے جاری کیے جانے چاہئیں۔ نیز، اِن کے بچّوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ اہم تقریبات میں اِن کی شمولیت بھی اُسی طرح یقینی بنائی جائے، جیسے دیگر فن کار مدعو کیے جاتے ہیں۔ عوام کی سرپرستی کا دعویٰ کرنے والے حُکم رانوں کو سیاست، سیاست کھیلنے کے ساتھ، ثقافت کی جانب بھی توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔