• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امیرے(ایک یوٹیوبر) ایران جانے کا واحد مقصد یہ تھاکہ مجھے جانا تھا بلوچستان ریجن آف ایران،وہ علاقہ جو پاکستان، افغانستان اور ایران سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستانی بلوچستان میں جا نہیں سکتا تو سوچا بلوچستان ریجن آف ایران یعنی پاکستان سے ملحقہ سرحدی پٹی سے جڑے ایرانی بلوچستان چلا جاؤں لیکن ایسا میری قسمت میں نہیں لکھا تھاکیوں کہ ایران اسرائیل جنگ سے میرا یہ مقصد فوت ہوگیا۔ میں 12 جون کو استنبول سے فلائٹ لے کر تہران پہنچا ٹھیک 12 گھنٹے بعد جنگ شروع ہوگئی ۔ میں ایران میں پھنس گیا،میں اپنے تمام ایرانی دوستوںکا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے جنگ کی پہلی رات حوصلے میں رکھا۔ ایک ایرانی دوست نے رات بھر مجھے تہران کی سیر کروائی لیکن جب میں سو کر اٹھا تو جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اس لمحے مجھے بہت زیادہ ڈر لگنے لگا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ کیوں کہ ایران کی فضائی حدود بند ہو چکی تھیں۔ کوئی پرواز اُڑان بھر نہیںسکتی تھی صرف جنگی طیارے ہی فضا میں اُڑتے اور بمباری کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ترکمانستان، عراق، آذربائیجان، پاکستان اور آرمینیا کی سرحدیں ایسی تھیں جہاں زمینی راستے سے ایران سے باہر نکلا جا سکتا تھا۔ ترکمانستان،عراق کا میرے پاس ویزہ نہیں تھا۔آذربائیجان کا بارڈر آرمینیا سے کشیدگی کے باعث بند تھا۔ پاکستان تو میرا جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے شروع ہی سے اندازہ تھا کہ میں آرمینیا کی طرف سے نکل جاؤں گا کیوں کہ مجھے آن آرائیول ویزہ کی سہولت میسر تھی۔ خدشہ یہ تھا کہ کہیں جنگ کی وجہ سے مجھے روک نہ لیا جائے ۔ شکر ہے مجھے انٹری ویزہ مل گیا اور میں ایران سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے اب بھی خوف ہے کہ کوئی خفیہ آنکھ میرا پیچھا کر رہا ہے۔ مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں آرمینیا میں بھی جنگ نہ چھڑ جائے۔ میری قسمت ہی کچھ ایسی چل رہی ہے کہ میں جہاں جاتا ہوں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ قسمت میں کچھ اچھا نہیں چل رہا۔ ایک دن کیلئے اپنے دیش بھارت گیا تو پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ سچ کہوں تو ایران کے لوگوں نے میرا دل جیت لیا ۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں ‘ اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایران اسرائیل میں جو کچھ چل رہا ہے میں اس مسئلے میں اُلجھنا نہیں چاہتا لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ ایرانی اچھی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں انکے ساتھ گزشتہ تیس چالیس سال سے جو زیادتی ہو رہی ہے جنگ کی وجہ سے لوگ مارے جا رہے ہیں‘دکھ ہوتا ہے۔ میرے ایران اور اسرائیل میں بہت اچھے دوست ہیںمجھے دونوں ممالک سے دوستوں کے پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ میں انہیں اور وہ مجھے انسٹاگرام پر فالو کرتے ہیں۔ میں جنگ کے بعد ایران سے نکلنے میں مدد کرنے والے دوستوں(خواتین)کا شکرگزار ہوں ،خصوصاًاس ٹیکسی ڈرائیور کا جس نے مجھے آرمینیا کے بارڈر تک پہنچایا۔ وہ مشکل ترین جنگی صورت حال میں بھی مجھ سے کرایہ نہیں لے رہا تھا۔ تصویر کا ایک رُخ آپ نے پڑھ لیا۔ اب دوسرا رُخ پڑھئے۔ وہ جہاں بھی گیا اپنے پیچھے تباہی آگ اور خون کی داستانیں چھوڑآیا۔ وہ ایک ایسا مشکوک کردار ہے جو بظاہر ایک یوٹیوبر سیاح نظر آتا ہے مگر وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ جب وہ لیبیا گیا تو وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ افغانستان پہنچا تو افغان طالبان امریکیوں سے لڑتے لڑتے اقتدار تک پہنچ گئے۔ روس کے ساتھ جنگ کے دوران وہ یوکرین میں موجود تھا۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف طلبہ تحریک چلی تو اس نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ وہ ایران میں حجاب کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک کا بھی عینی شاہد ہے۔ وہ ساؤتھ‘ نارتھ ایران میں چار مرتبہ آ جا چکا ہے۔ وہ جب بھی ایران گیا وہاں ہر بار کسی نہ کسی صورت ایک نئی تبدیلی دیکھی گئی۔ 12جون کواس کا آخری پڑاؤ تہران تھا ایسا پہلی بار ہی ہوا کہ اس نے ایران میں داخلے کیلئے بذ ریعہ استنبول تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ قبل ازیں وہ مختلف ایرانی ہوائی اڈوں سے ایران میں قانونی طور پر داخل ہوتا رہا ہے۔ وہ جس رات تہران پہنچا اس نے ایئرپورٹ سے ہی موبائل فون کی نئی سم نکلوائی (عمومی طور پر بار بار ایک ہی ملک آنے جانے والے لوگ پرانی سم کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ )اور ایک افغانی نوجوان کے ذریعے ڈالرز کو مقامی کرنسی میں تبدیل کروا کے وہ ایئرپورٹ سے ساٹھ منٹ کی مسافت پر ایک ایسے ہاسٹل میں قیام پذیر ہوا جو تہران ایئربیس کے بالکل قریب تھا۔ وہ دن بھر اور رات کے دوسرے پہر تک اپنے ایرانی میزبانوں کے ہمراہ تہران کی گلیوں میں گیڑیاں (چکر)لگاتا رہا۔تیسرے پہر یعنی اس کی تہران آمد کے ٹھیک بارہ گھنٹے بعد تہران اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری سے لرز اُٹھا اور پہلی اطلاع ہی یہ آئی کہ اسکے ہاسٹل کے قریب واقع ایران کے مرکزی ایئربیس کو تباہ کردیا گیا ہے۔ پھر تباہی و بربادی کی اطلاعات پوری دنیا تک پھیل گئیں۔ وہ بظاہر یوٹیوب پر مختلف ملکوں کے خوب صورت مناظر‘ لوگوں کا رہن سہن دکھاتا ہے دنیا بھر میں اس کے لاکھوں فالورز ہیں۔ مودی نے اسے ایک ملاقات کے دوران بھارت کا بہترین سفیر بھی قرار دے رکھا ہے۔ یو ٹیوب کو اس نے جاسوسی کے مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ وہ مشرق وسطیٰ بشمول سعودی عرب سمیت دنیا کے مختلف اسٹرٹیجک ممالک میں اکثر آتا جاتا ہے۔ افغانستان ‘ ایران ماضی قریب میں اس کے اہم ترین مقامات اور موضوعات تھے۔ باقی روداد آئندہ پیش کی جائے گی۔

تازہ ترین