پاکستان میں ماحولیاتی چیلنج جس قدر سنگین ہوچکا ہے اُس کی بھرپور نشاندہی کرتے ہوئے چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی سینیٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے گزشتہ روز اسلام آباد میں’’ ماحولیاتی آفات یا اجتماعی اقدام، پاکستان کی آخری وارننگ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں بتایا کہ جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025ءمیں پاکستان کو سب سے زیادہ متاثرہ ملک قراردیا گیا ہے۔ پاکستان میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی، ژالہ باری اور اچانک سیلاب معمول بن چکے ہیں، پچھلے پانچ برسوں میں 16 فیصد گلیشیئر ماس ختم ہو چکا ہے، پاکستان کی 90 فیصد پانی کی کھپت زراعت میں ہوتی ہے جو ماحولیاتی جھٹکوں کی زد میں ہے، 83 لاکھ کسان خاندانوں کی فصلیں اور مویشی ماحولیاتی اسباب سے تباہ ہو رہے ہیں جبکہ عالمی بینک کے مطابق فضائی آلودگی سالانہ سوالاکھ سے زیادہ افراد کی جان لے رہی اورقومی معیشت کو سالانہ سات فیصد نقصان پہنچا رہی ہے۔ فاضل سینیٹر نے صراحت کی کہ اس تباہ کن صورت حال میں قدرتی اسباب کے ساتھ ساتھ انسانی جرائم کا بھی بڑا حصہ ہے،دریاؤں میں غیر قانونی مائننگ، جنگلات کی کٹائی اور تعمیرات نے ماحولیاتی تناؤ کو بڑھا دیا ہے جبکہ وفاقی بجٹ میں وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا بجٹ 3.5 ارب سے کم کر کے 2.7 ارب کر دیا گیا، ماحولیاتی تحفظ کے لیے فنڈنگ 7.2 ارب سے گھٹا کر 3.1 ارب کر دی گئی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا، آلودگی کنٹرول کے فنڈز بھی آدھے کر دیے گئے ، سالانہ 27 ہزار ہیکٹر زرخیز زمین ختم ہو رہی ہے، مگر بحالی کی کوئی اسکیم نہیں۔ سینیٹ کی ماحولیاتی تبدیلی کمیٹی کی چیئرپرسن کا یہ انتباہ بلاشبہ تمام متعلقہ حکام اور اداروں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ اس ضمن میں غفلت کا مطلب اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کرنا ہے لہٰذا جنگی بنیادوں پر بہتری کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔